رسائی کے لنکس

نیب ترامیم کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • ’اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو اپنے دور حکومت میں ایمنسٹی کیوں دی۔’
  • ’پارلیمنٹ کے قانون کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے‘۔
  • ’اگر نیب کا پرانا قانون ہوتا تو آج آپ کے مؤکل بھی شدید مشکل میں ہوتے‘۔
  • ’سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو مانیٹر نہیں کر سکتی‘۔
  • میں کہتا ہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔ عمران خان
  • پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو جواب نہیں دے سکتا تھا۔ عمران خان
  • تحریری حکم نامے میں چیف جسٹس نے لکھوایا کہ کوئی بھی فریق تحریری جواب جمع کرانا چاہے تو کروا دے۔

اسلام آباد۔۔۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ سماعت کے دوران عمران خان نے بھی ویڈیو لنک پر جیل سے اپنے دلائل دیے۔

عمران خان کو اس کیس میں دلائل دینے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو اسے تھرڈ امپائر تعینات کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔ تھرڈ امپائر کی طرف سے تعیناتی کے بعد چیئرمین نیب تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتا ہے۔ ہمارے دور میں بھی نیب ہمارے ماتحت نہیں تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کی جس میں عمران خان اڈیالہ جیل سے بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے دلائل دیے۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جب کہ چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا۔

خواجہ حارث کے دلائل

سپریم کورٹ کے فاضل جج نے ریمارکس دیے ہیں کہ غیر منتخب افراد کو نیب قانون سے باہر رکھنا امتیازی سلوک ہے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے کہا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔

عدالتی معاون وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں۔ نیب ترامیم آرٹیکل 9،14،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔

بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا۔ غیر منتخب پر نیب کا اختیار کیوں نہیں رکھا گیا؟ غیر منتخب افراد کو نیب قانون سے باہر رکھنا امتیازی سلوک ہے۔ منتخب نمائندے کے پاس پبلک فنڈز تقسیم کرنے کا اختیار کہاں ہوتا ہے۔ کوئی ایک مثال بتائیں۔ کرپشن منتخب نمائندے نہیں بلکہ پرنسپل اکاونٹنگ افسر کرتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کوئی منتخب نمائندہ یا وزیر متعلقہ سیکرٹری کی سمری کے بغیر کوئی منظوری نہیں دیتا۔ کیا کوئی سیکرٹری سمری میں لکھ دے کہ یہ چیز رولز کے خلاف ہے تو وزیر منظوری دے سکتا ہے؟ اعلی حکام میں انکار کرنے کی جرات ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں جیسا قانون پہلے تھا وہی برقرار رہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم مخصوص افراد کے فائدے کے لیے تھیں، کیونکہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ وہی جماعت جس نے سپریم کورٹ میں قانون چیلنج کیا، اسی نے ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا۔ شعیب شاہین نے قانون چیلنج کیا۔ حامد خان صاحب ان کے وکیل تھے۔ ہائیکورٹ نے تو نوٹس بھی جاری کر لیا تھا۔ ہائیکورٹ جانا پھر سپریم کورٹ آنا۔ کیا اپنی مرضی سے خریداری کرنا مقصد تھا۔ نیب ترامیم اتنی خطرناک تھیں تو انہیں معطل کر دیتے۔ 53 سماعتوں تک ترامیم زندہ رہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قانون کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ کے قانون کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب شعیب شاہین نے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، انہوں نے سپریم کورٹ کو کیوں نہیں بتایا۔ تنقید کرنا بڑا آسان ہوتا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر شعیب شاہین باتیں کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے پیش ہو کر جواب دیں۔ باہر جا کر کیمرے پر گالیاں دیتے ہیں۔ گالیاں دینا تو آسان کام ہے۔ اگر میں نے غلطی کی تو مجھ پر انگلی اٹھائیں۔ باہر جا کر بڑے شیر بنتے ہیں۔ سامنے آ کر کوئی بات نہیں کرتا۔ اصولی مؤقف میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ حارث سے کہا کہ ایک اثاثوں کے کیس میں ہی سپریم کورٹ نے مانیٹرنگ جج لگایا۔ پھر اس کیس میں آپ ملزم کے وکیل اور میں جج تھا۔ سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے۔ اس کیس میں ایک پاور فل جے آئی ٹی بھی بنی جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے بھی تھے۔ بتائیں اس کیس کا کیا بنا۔ اس کیس میں آپ وکیل تھے؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نہ ہو سکا۔

عمران خان کی ایمنسٹی سکیم

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک موقع پر خواجہ حارث سے کہا کہ اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو اپنے دور حکومت میں ایمنسٹی کیوں دی۔ برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے بتائیں وہاں کیوں ایمنسٹی نہیں دی جاتی۔ ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب قانون سے آج آپ کے فریق بھی متاثرہ ہیں۔ اگر نیب کا پرانا قانون ہوتا تو آج آپ کے مؤکل بھی شدید مشکل میں ہوتے۔ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میرے مؤکل کو فائدہ ہوا، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ لیکن ہم پھر بھی ہم سپریم کورٹ آئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر پی سی او نہ ہوتا تو شاید تب پورا نیب قوانین اڑا دیا جاتا۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں۔ مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط، اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک۔ آپ کو ہمیں دکھانا ہو گا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین سے بتانا ہو گا ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ بلکہ ترامیم کے ذریعے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے۔ آپ کیوں چاہتے ہیں ہر معاملے پر کارروائی نیب ہی کرے۔ اس پر اتنا اعتبار کیوں؟ پارلیمنٹ نے اثاثوں کی سیکشن کو صرف اسٹرکچر کیا ہے۔ وہ چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے۔ مجھے نیب پر اعتماد نہیں۔ میں تو قانون کی بات کر رہا ہوں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کے ذریعے پارلیمنٹ کے قانون میں ترمیم کی۔ ایک شخص آیا اس نے آئین کو روند کر نیب قانون بنا دیا۔ اگر مارشل لاء نہ لگتا تو نیب قانون ہی نہ ہوتا۔ اراکین پارلیمنٹ نیب سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ کیا ہم پارلیمنٹ کے قانون میں عدالتی فیصلے کے ذریعے ترمیم کر سکتے ہیں؟ کل پارلیمنٹ دوبارہ قانون بنا لے تو کیا ہو گا؟

کیا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست تھا؟

خواجہ حارث کے دلائل کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو مانیٹر نہیں کر سکتی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام سپریم ہے اس لیے پارلیمنٹ سپریم ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ عوام کی امین ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہ تو پھر کیا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست تھا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا سیاسی فیصلہ تھا جو درست نہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل مکمل کیے جس پر عدالت نے سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔

وقفہ کے بعد عمران خان نے اپنے دلائل دیے۔

عمران خان کے دلائل

وقفہ کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ویڈیو لنک پر موجود عمران خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ ہمیں سن سکتے ہیں؟ کیا آپ کیس سے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ میں آپ کو سن سکتا ہوں۔

عمران خان نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک چیز سمجھ نہیں آئی۔ آپ نے لکھا میں نے گزشتہ سماعت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کون سی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی؟عمران خان نے کہا کہ مجھے تکلیف ہوئی۔ کہا گیا میں غیر ذمہ دار کیریکٹر ہوں جس کے باعث براہ راست نشر نہیں کیا جائے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے۔ آپ نظر ثانی دائر کر سکتے ہیں۔

عمران خان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتا ہوں جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے کیس پر رہیں۔

عمران خان نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہو گا۔ مجھے 14 سال کی قید ہو گئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفے کی قیمت کم لگائی۔ پونے دو کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تھرڈ امپائر تعینات کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔کیونکہ جب چیئرمین نیب تھرڈ امپائر کے ذریعے تعینات ہوتا ہے تو وہ انہی کے ماتحت ہی رہتا ہے۔ نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا۔

عمران خان نے کہا کہ برطانیہ میں جمہوری نظام اخلاقیات، قانون کی بالادستی، احتساب پر ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں پارلیمنٹ ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ فارم 47 والے ترمیم نہیں کر سکتے۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پھر اسی طرف جا رہے جو کیسز زیر التوا ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا ہے۔ عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہے گا؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا، اس کے بعد کیا اعتبار ہو گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جیل میں جا کر تو مزید میچیورٹی آتی ہے۔ سیاستدان وہاں سے سیکھ کر آتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ 27 سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا۔ غریب ملکوں کے 7 ہزار ارب ڈالر باہر پڑے ہیں۔ اس کو روکنا ہوگا۔میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں، نیب کو بہتر ہونا چاہیے۔ کرپشن کے خلاف ایک مخصوص ادارے کی ضرورت ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر عمران خان کو چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کا معاملہ یاد کروا دیا اور کہا کہ ممبران کی تعیناتی کے معاملہ پر ہم نے اس وقت آپ کی حکومت کو اختیار دیا تھا کہ یہ آپ کا اختیار ہے۔

عمران خان نے کہا کہ میں جیل میں ہی ہوں۔ نیب ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو ہو جائے گی لیکن ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا۔ دبئی لیکس میں بھی نام آ چکے۔ پیسے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ غریب باہر سے ریمٹنس بھیجتے ہیں اور امیر یہاں سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے اور اس کی بڑی وجہ منی لانڈرنگ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کر رہی ہیں۔ حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں۔ جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک۔ پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔اس پر عمران خان نے کہا کہ بھارت میں کیجریوال کو آزاد کر کے، سزا معطل کر کے انتخاب لڑنے دیا گیا، جب کہ مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کر دیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ تو سیاسی نظام کس نے بنانا تھا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں۔ آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کچھ بھی ہو گیا تو ہمیں شکوہ آپ سے ہو گا۔ ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ملک کو کچھ ہوا تو آپ سیاست دان ذمہ دار ہوں گے۔

عمران خان نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا مگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روک دیا اور کہا کہ سائفر کیس میں شاید اپیل ہمارے سامنے آئے، جس پر عمران خان نے کہا کہ میں زیر التوا کیس کی بات نہیں کر رہا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارا یہی خدشہ تھا کہ زیر التوا کیس پر بات نہ کر دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیوں نیب بل کی مخالف نہیں کی؟ جس پر عمران خان نے کہا کہ یہی وجہ بتانا چاہتا ہوں کہ حالات ایسے بن گئے تھے۔ شرح نمو 6 اعشاریہ 2 پر تھی۔ حکومت سازش کے تحت گرا دی گئی۔ پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو جواب نہیں دے سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خان صاحب آپ دو مختلف باتیں کر رہے ہیں۔ ایک طرف آپ احتساب کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایمنسٹی دیتے ہیں۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ ہم نے حکومت میں آ کر بلیک اکانومی کو مین اسٹریم میں لانے کے لیے ایمنسٹی دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کریں۔ ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر سینیٹر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سیاست دان مل کر مسائل کے حل کے لیے کام کریں، جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔

سماعت کا تحریری حکم نامہ

تحریری حکم نامے میں چیف جسٹس نے لکھوایا کہ کوئی بھی فریق تحریری جواب جمع کرانا چاہے تو کروا دے۔

نیب کی طرف سے 10 ارب ڈالر کی ریکوری کے دعویٰ پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب نے ریکوڈک کیس میں 10 ارب ڈالر کی ریکوری کیسے لکھ دی۔ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا، یہ ہماری ان ڈائریکٹ ریکوری تھی۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ ہم ایسی غلط دستاویز دائر کرنے پر آپ کو توہین عدالت کا نوٹس کریں گے۔ وہ مقدمہ تو ثالثی کے معاملے پر سپریم کورٹ آیا تھا۔ جواب میں لکھا کہ نیب نے پیسے اپنے پاس ہی رکھے ہیں۔ آپ ایک روپیہ بھی اپنے پاس کیسے رکھ سکتے ہیں۔ عدالت نے اس بارے میں پراسیکیوٹر جنرل نیب کو خود پیش ہونے کا حکم دیا۔

فاروق ایچ نائیک نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی دور میں کوئی نیب کیس نہیں بنا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی کی بات ہمارے سامنے نہ کریں۔

عدالت نے تحریری حکم نامے میں نیب سے دس سالہ بجٹ اور ریکوریز کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ جب کہ قومی احتساب بیورو کے وکیل کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب مسترد کر دیا۔

تحریری حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی فریق سات دنوں میں جواب داخل کروانا چاہے تو کروا سکتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG