کرونا وائرس کی وبا کے منفی اثرات نے جہاں اقتصادی سرگرمیوں کا پہیہ جام کر دیا ہے، وہاں اس کے نتیجے میں امریکہ میں سیاست دانوں میں بھی کشیدگی نے جنم لیا ہے جن کے مابین محاذ آرائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
معاشی اور اقتصادی شعبے پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور ریاستی سطح پر اقدامات جاری ہیں اور بعض ریاستوں نے محتاط انداز میں پابندیاں نرم کر دی ہیں۔ لاک ڈاؤن میں متعدد ریاستوں کی معیشت کو شدید طور پر اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے اور وہ ایک اور امدادی پیکیج میں مزید فنڈنگ کے لیے وفاقی حکومت کی جانب دیکھ رہی ہیں۔
کئی ہفتوں کے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر مشیر کیون ہیسٹ کہتے ہیں کہ امریکی معیشت پر تاریخی نوعیت کے اثرات پڑ رہے ہیں۔
ان کے مطابق ہماری معیشت اس سے بڑے صدمے سے کبھی دوچار نہیں ہوئی۔ بیروزگاری اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ وہ اب عظیم کساد بازاری کے دور کی حدودوں کو چھونے والی ہے۔ دوسری جانب کاروبار بند ہونے کی وجہ سے محصولات کی مد میں آمدن کم ہوتی جا رہی ہے جب کہ بیروزگاری الاونس کی ادائیگی کے باعث زبردست مالی بوجھ الگ پڑ رہا ہے۔ بہت سے گورنر کانگریس پر زور دے رہے ہیں کہ اگلے امدادی پیکیج میں ریاستوں کے لئے فنڈنگ مختص کی جائے۔
نیشنل گورنرز ایسوسی ایشین کے چیئرمین اور میری لینڈ کے گورنر لیری ہوگان نے اے بی سی کے پروگرام ’دیس ویک‘ میں کہا کہ ہم اگلے محاذ پر ہیں اور ہمیں لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے ضروری خدمات مہیا کرنا لازمی ہے۔
لیکن بہت سے ریپبلکن اور وائٹ ہاؤس کے اقتصادی ماہرین امدادی فنڈنگ میں پہلے ہی دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ مہیا کیے جانے کے بعد مزید وفاقی قرض کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔
سیاسی بحث و تمحیص سے قطعِ نظر صحت کے سرکاری مشیر اور ساتھ ہی بعض ریاستوں کے گورنر اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ معیشت کو مکمل طور پر دوبارہ کھولنے سے پہلے کرونا وائرس کے لیے مزید ٹیسٹنگ ضروری ہے۔
مینی سوٹا کی سنیٹر ایمی کلوبوچار اس بات کی وکالت کرتی ہیں کہ طبی جانچ کی رفتار کو دوگنا کر دیا جائے تاکہ خوراک کی سپلائی چین کو مشکلات سے بچایا جا سکے۔
ریاست مشی گن کی گورنر گریچن وٹمر کا کہنا ہے کہ مختلف شعبوں کو کھولتے ہوئے، طریقہ کار کا تعین اور توازن درکار ہے۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار ایلزبتھ لی نے اپنی رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ ریاستی گورنروں اور کانگریس میں قانون سازوں کو اس عالمگیر وبا کی وجہ سے لوگوں کی صحت اور سلامتی اور اقتصادی تباہ کاریوں کے درمیان توازن کا خیال رکھنا ہو گا۔
دوسری طرف واشنگٹن پر منڈلاتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی سے بھی نبرد آزما ہونا ہو گا، خاص کر ایک ایسے ماحول میں جب صدارتی انتخاب کو تقریباً چھ مہینے ہی رہ گئے ہیں۔
بہرحال سیاسی تجزیہ کار کرونا کی عالمی وبا کے تناظر میں صورت حال کو بدستور گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ آخر یہ طوفان کہاں اور کب تھمے گا۔