عالمگیر وبائی مرض کرونا کے پھیلنے سے قبل عام طور سے وینٹی لیٹر کی تیاری میں ایک سال کا عرصہ لگتا تھا اور ان کی لاگت بھی زیادہ ہوتی تھی۔ مگر پوری دنیا میں کرونا کے پھیلنے سے انجینئرز اور سائنس دانوں نے مل کر ایسی ٹیکنالوجی اختیار کی ہے کہ اب یہ ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں بن جاتے ہیں اور چونکہ تعداد میں زیادہ بن رہے ہیں اس لیے لاگت بھی کم آ رہی ہے۔
نیویارک ریاست کے لانگ آئی لینڈ شہر میں ایسی ہی ایک فیکٹری میں یہ کم قیمت وینٹی لیٹرز تیار کیے جا رہے ہیں۔
امریکہ میں کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر نیویارک تھا۔ اس کے میئر نے اعلان کیا تھا کہ انہوں ایسے تین ہزار وینٹی لیٹرز کے آرڈرز دیے ہیں، جن کی لاگت ایک کروڑ ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
اس کمپنی کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کے اندر نہ صرف ان کا ڈیزائن تیار کیا گیا بلکہ ان کی پروڈکشن بھی شروع کر دی گئی۔ کمپنی کے مطابق اس کی قیمت پانچ ہزار ڈالر ہو گی، جب کہ اس سے پہلے بننے والے وینٹی لیٹرز کی قیمت تیس ہزار ڈالر تھی۔
سکاٹ کوہن ایک ایسی ہی کمپنی کو شریک مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیویارک میں اس بڑھتی ہوئی وبا اور وینٹی لیٹرز کی ضرورتوں کو دیکھ کر انہوں نے سوچا کہ اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیے۔
کوہن کو پتہ چلا کہ میساچوسسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے بنیادی وینٹی لیٹر کا دس سال پہلے ایک ڈیزائن تیار کیا تھا۔ انہوں وہاں اپنی ایک ٹیم کو بھیجا تاکہ وہ یہ دیکھ سکے کہ اس پرانے پرانے ڈیزائن میں کچھ رد و بدل کے ساتھ ایک کم خرچ وینٹی لیٹر بن سکتا ہے یا نہیں۔
وہاں انسٹی ٹیوٹ کے انجینئر شکتی شالی گرام اور کمبرلے جنگ نے اس پرانے ڈیزائن کو کارخانے میں ایک بار پھر آزمایا، پہلے تو کوئی کامیابی نہ ہوئی، مگر مسلسل کوشش سے انہیں امید کی کرن نظر آئی۔ مگر یہ انسٹی ٹیوٹ کوئی کارخانہ تو تھا نہیں۔ چنانچہ اب نیو یارک کی ٹیم نے اس ڈیزائن کو نیویارک لا کر اپنے کارخانے تجربات شروع کیے۔ یہاں انہوں نے 24 سے 48 گھنٹوں میں ایک کے بعد ایک پرٹو ٹائپ تیار کرنا شروع کر دیا۔
کامیابی اب بھی دور تھی۔ پھر ایک اور کمپنی سپائرو ویو نے ان کے ساتھ شراکت کی۔ یہ کمپنی مریضوں کے لیے برج وینٹی لیٹرز بناتی تھی۔ یہ عارضی طور پر سانس کی آمد و رفت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
بہر حال ٹیک کمپنیوں کی شراکت داری سے اب یہ وینٹی لیٹرز بن رہے ہیں جو عارضی طور پر اس ہنگامی صورت حال سے بخوبی نمٹ سکتے ہیں۔ مگر توقع ہے کہ جلد یہ پوری مہارت سے مستقل طور پر نئے ونیٹی لیٹرز کی جگہ لے لیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس دریافت سے امریکہ کے علاوہ ترقی پذیر ملکوں کو بہت فائدہ پہنچے گا جنہیں ان وینٹی لیٹرز کی اشد ضرورت ہے۔