ڈاکٹر سواتی وشواناتھن کیلئے اپنے مریضوں کو یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ ان کا علاج کیوں جاری نہیں رکھ سکتیں اور اچانک انہیں کووڈ 19 کے مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے آئی سی یو میں کیوں طلب کرلیا گیا ہے۔
یہ نیو یارک میں کرونا وائرس کے مریضوں کی بہتات کے دن تھے۔ ڈاکٹر سواتی بروکلین نیو یارک ایچ ایچ سی ہاسپٹل میں آن کالوجسٹ ہیں۔ کینسر کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے انہیں کووڈ 19 کے مریضوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں فرائض انجام دینے کیلئے کہا گیا تھا۔
سواتی کے شوہر ڈاکٹر پراشانت موتھو کرشنا ایک پلمونالوجسٹ ہیں۔ وہ بھی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں کہ پہلے تو خیال تھا کہ کینسر کے مریضوں کی حالت سب سے زیادہ تشویشناک ہوتی ہے، مگر کووڈ 19 کا تجربہ ان کی لئے اس سے بھی بڑھ کر کٹھن رہا۔
وہ دونوں کہتے ہیں کہ مریضوں کیلئے کچھ نہ کر سکنا ایک ڈاکٹر کیلئے بہت تکلیف دہ بات ہے۔ ڈاکٹر ہمیشہ اپنی کامیابی چاہتا ہے مگر کووڈ 19 نے ڈاکٹروں کو بھی بے بس کر دیا ہے۔ اپنے سامنے مریضوں کو موت سے ہمکنار ہوتے دیکھنا اور پھر لواحقین کی مجبوری کہ وہ اپنے پیاروں کے آخری وقت ان کے ساتھ بھی نہیں، بہت المناک صورتِ حال ہے۔
اب اگرچہ مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے مگر خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ ڈاکٹر موتھوکرشنا کہتے ہیں کہ جو لوگ صحتیاب ہو گئے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کم از کم دو ہفتے تک احتیاط جاری رکھیں۔ اپنے ڈاکٹر سے رابطے میں رہیں اور سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کریں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس وائرس پر تحقیق ہو رہی ہے اور یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک مرتبہ اس کا شکار ہونے والے لوگ اس سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے ہیں یا نہیں۔
وینٹی لیٹر پر رکھے مریضوں کو ایسی دوائیں دی جاتی ہیں جو انہیں سلائے رکھتی ہیں تاکہ ان کا جسم حرکت نہ کرے اور پھیپھڑے جلد اپنا کام کرنا شروع کر دیں۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ان مریضوں کے وینٹی لیٹر سے واپس آنے کے بعد انہیں ذہنی طور پر نارمل ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔
امریکہ میں کرونا وائرس کے پھیلتے ہی سب سے زیادہ مریض نیو یارک میں سامنے آئے۔ ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں کہ نیو یارک شہر میں مریضوں کی اتنی زیادہ تعداد کی وجہ یہ ہے کہ یہاں آبادی بہت زیادہ ہے۔ لوگوں نے ابتداء میں ایک دوسرے سے فاصلہ نہیں رکھا۔ فلائٹس بھی کھلی رہیں اور سیاحوں کی آمد بھی جاری رہی۔ چنانچہ مرض جب پھیلا تو آبادی کا ایک بڑا حصہ اس کی لپیٹ میں آ گیا۔
ڈاکٹر موتھو کرشنا کہتے ہیں کہ بہت سی ریاستوں میں کاروبار کھل رہے ہیں۔ مگر اب بھی ضروری ہے کہ لوگ زندگی کے معمولات میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ اپنی صحت کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ آئی سی یو میں مریضوں کی جان نہ بچا سکنا کوئی اچھا تجربہ نہیں ہے۔ اس لئے جو لوگ اس وائرس سے صحتیاب ہو گئے ہیں، انہیں اپنا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اپنے جسم کے مدافعتی نظام کو ضرور مضبوط بنائیں۔ اور اس کے لیے انہیں مشورہ ہے کہ روزانہ صبح سویرے اٹھ کر چہل قدمی ضرور کریں ایسے وقت میں جب بہت لوگ باہر نہیں ہوتے اور فضا بہت صاف ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو کووڈ 19 کے کسی مریض سے رابطے میں رہے ہوں انہیں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیئے کہ وہ خود کو کم از کم دو ہفتے کیلئے الگ تھلگ کر لیں اور مریض صحتیاب ہو کر گھر جائے تو بھی احتیاط جاری رہے کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ مریض تھوڑا سنبھل جائے، کھانے پینے لگے، اسے بخار نہ ہو، تو اسپتال سے فارغ کردیا جاتا ہے
ان کا کہنا ہے کہ ایسے مریضوں کی گھر پر بھی دیکھ بھال جاری رہنی چاہیئے۔ اس کے جسم کا درجہ حرارت باقاعدگی سے نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسے نارمل ہونے میں بھی دو تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔
امریکہ میں مریضوں کیلئے یہ سہولت ہے کہ وہ اپنے ڈاکٹر سے ویڈیو کال پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر کو ای میل کر سکتے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں کہ صحتیاب ہو کر بھی اپنے ڈاکٹر سے رابطہ ضرور رکھیں۔
کرونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے اس سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جاتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں ابھی تحقیق ہو رہی ہے اور اس کیلئے اینٹی باڈی ٹیسٹ متعارف کروایا گیا ہے۔ ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں کہ اگرچہ ابھی اس کے حتمی اعداد و شمار نہیں آئے مگر کہا جا رہا ہے کہ نیو یارک میں 21 فیصد مریضوں میں یہ اینٹی باڈیز پائی گئی ہیں۔
کرونا وائرس پر تحقیق ایک طویل المدت عمل ہے۔ ابھی کوئی بات بھی حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی، نہ ہی کوئی حتمی علاج ہی سامنے آیا ہے۔ اس لئے احتیاط ہی کی جا سکتی ہے اور بہتر ہے کہ ہم اپنے لئے اور اپنے ساتھ رہنے والوں کیلئے ہر وہ احتیاط جاری رکھیں جو اب تک اس وائرس سے محفوظ رکھنے میں کارآمد رہی ہے۔