رسائی کے لنکس

پاکستان میں مہنگائی کی لہر، آئی ایم ایف کی مزید اضافے کی پیش گوئی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران مہنگائی میں اضافے کی پیش گوئی کی ہے جب کہ آئندہ سال اس میں معمولی کمی کا بھی بتایا ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق رواں برس پاکستان میں مہنگائی کی شرح دس اعشاریہ دو فی صد جب کہ آئندہ سال یہ شرح آٹھ اعشاریہ آٹھ فی صد ہونے کا امکان ہے۔ اسی طرح ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح بھی منفی سے بہتر ہو کر ایک فی صد ہونے کی توقع ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے دنیا کے تمام ممالک سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کرونا وائرس سے مشکلات کا شکار ہونے کے بعد آئندہ پانچ سال تک کی معیشت کے اندازے لگائے گئے ہیں۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پاکستان میں آٹا، دال، چینی، دودھ، انڈے، گوشت سمیت دیگر اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔

تجزیہ کار اور معاشی امور کے ماہر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سمیت دیگر مالی امور کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام اس کی معیشت کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہونا ہیں جس میں آئی ایم ایف بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کرے گا۔ ایسے میں اپوزیشن سڑکوں پر ہو گی اور حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں کر سکے گی جس سے معیشت کو مزید نقصان کا امکان ہے۔

پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری سے متعلق فرخ سلیم کہتے ہیں اس وقت جن مسائل کا سامنا پاکستان کے عام عوام کو ہے وہ حکومت اور اپوزیشن کے مسائل ہی نہیں ہیں۔

مہنگائی سے پاکستانی مائیں پریشان
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:58 0:00

آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں مالی سال میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو اعشاریہ پانچ فی صد اور بے روزگاری صفر اعشاریہ چھ فی صد سے بڑھ کر پانچ اعشاریہ ایک فی صد ہونے کا امکان ہے۔

حکومتِ پاکستان نے شرح نمو جی ڈی پی کے دو اعشاریہ ایک فی صد، افراطِ زر چھ اعشاریہ پانچ فی صد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اعشاریہ پانچ فی صد رہنے کا ہدف مقرر کیا تھا جو آئی ایم ایف کے مطابق ممکن نظر نہیں آ رہا۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ غربت کے خاتمے اور معیارِ زندگی بہتر بنانے کی عالمی کوششوں کو کرونا کے باعث ریورس گیئر لگ چکا ہے۔

پاکستان میں ڈالر کی قدر میں کمی اور روپے کی قیمت میں بہتری کے باوجود ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

اوپن مارکیٹ میں اس وقت ڈالر کی قیمت 163 روپے تک پہنچی ہے جو دو ماہ قبل تک 168 روپے تھی۔

ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں بہتری کی وجہ بیرونِ ملک سے پاکستانیوں کی بھجوائی جانے والی ترسیلاتِ زر ہیں جب کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق ترسیلاتِ زر ستمبر میں مسلسل چوتھے مہینے دو ارب ڈالر سے زائد رہیں۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق دو اکتوبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے اختتام پر اسٹیٹ بینک کے پاس محفوظ زرِ مبادلہ کے ذخائر کا حجم 12 ارب ایک کروڑ 54 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا جب کہ مجموعی ذخائر کا حجم 19 ارب تین کروڑ 51 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔

ریکارڈ کے مطابق ستمبر کی ترسیلات بڑھ کر 2 ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ برس کے اسی مہینے کے مقابلے میں اکتیس اعشاریہ دو فی صد زیادہ اور اگست کی نسبت نو فی صد زائد ہیں۔

اسی طرح رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران برآمدات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں صفر اعشاریہ نو فی صد کمی جب کہ درآمدات میں صفر اعشاریہ پانچ فی صد اضافہ ہوا ہے۔

تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ برآمدات میں اضافے کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کم ہوا ہے۔ ان کے بقول ملک میں بہتر کام ترسیلاتِ زر نے کیا ہے کیو ں کہ ہر ماہ دو ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان میں آرہی ہیں۔

آٹا کیوں مہنگا ہو رہا ہے؟

پاکستان میں آٹے کی قیمتیں گندم کی درآمد کے باوجود خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں یہ بحران گندم کی سپلائی بروقت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جب کہ حکومت اس کمی کا ملبہ ذخیرہ اندازوں پر ڈال رہی ہے۔

گندم کے علاوہ چاول، چینی اور دالیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے 2014 کے بعد یہ پہلا موقع ہے حکومت گندم درآمد کر رہی ہے۔

اس وقت مارکیٹ میں 15 کلو آٹے کا تھیلا تقریباً 1100 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کے مطابق اس سال حکومت نے اُنہیں گندم اسٹاک کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی حکومت نے خود مطلوبہ گندم خریدی جس کی وجہ سے ملک میں شارٹ فال ہے۔

ملک میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے حالیہ اجلاس کے دوران روس سے ایک لاکھ 80 ہزار ٹن گندم خریدنے کی منظوری دی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صوبہ پنجاب کے فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق صدر ریاض اللہ خان نے بتایا کہ رواں برس ملک میں بارشوں کے باعث گندم کی پیداوار کم ہوئی ہے جب کہ حکومت نے مناسب وقت پر گندم درآمد نہیں کی۔

ان کے بقول حکومت کے برعکس پرائیویٹ سیکٹر نے گندم درآمد کی اور یوں نرخ میں فرق ہے۔ اسی لیے مارکیٹ میں گندم مہنگی مل رہی ہے۔

ریاض اللہ خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل میں صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ اگر حکومت نے جلد مناسب منصوبہ بندی کے تحت وقت پر گندم درآمد نہ کی تو دسمبر کے بعد ملک میں گندم کا شدید بحران لاحق ہو سکتا ہے۔

ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ گندم کی قیمت کے بے قابو ہونے کو طلب و رسد کے فرق نے متاثر کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عابد قیوم سلہری نے بتایا کہ گندم کی کٹائی کے بعد حکومت پنجاب نے پرائیویٹ سیکٹر پر گندم خریدنے پر پابندی لگائی۔ تاہم کچھ لوگوں نے پھر بھی حکومت سے چھپا کر مارکیٹ سے گندم خریدی۔

انہوں نے بتایا کہ عموماً پرائیویٹ سیکٹر کسانوں سے گندم خرید لیتا تھا اور جب مارکیٹ میں گندم کم ہونا شروع ہو جاتی تھی تو پھر حکومت اپنی گندم مارکیٹ میں سپلائی کرنا شروع کر دیتی تھی۔

عابد سلہری کے مطابق چونکہ مارکیٹ میں گندم زیادہ تعداد میں دستیاب نہیں ہے اس لیے ذخیرہ اندوزی کے سبب گندم بلیک میں فروخت ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاہور میں حکومتی اور اوپن مارکیٹ کے نرخ میں 500-600 روپے کا فرق ہے اور یہ فرق پشاور اور دوسرے علاقوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔

زرعی امور کے ماہر ڈاکٹر عارف گوہیر کے مطابق پاکستان میں گندم کی سالانہ طلب تقریباً 50 ملین ٹن ہے۔ تاہم رواں برس فروری اور مارچ میں بارشوں، ژالہ باری اور ٹڈی دل کے حملے کے باعث گندم کا ہدف پورا نہ ہو سکا۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں اقتصادی ماہر عابد سلہری کہتے ہیں کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔ ان کے بقول ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کا تناسب ڈبل ڈیجٹ پار کر سکتا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر نظر رکھنے کے لیے ٹائیگر فورس سے کہا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں باقاعدگی سے آٹا، دال، چینی اور گھی کی قیمتوں پر نظر رکھیں اور نرخوں کو ٹائیگر فورس پورٹل پر پوسٹ کریں۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعظم کے اس اقدام کو سختی سے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ قیمتوں کو چیک کرنے کے حوالے سے ٹائیگر فورس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں کے اہل خانہ بھی مہنگائی سے تنگ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:41 0:00

عابد سلہری کے مطابق اگر وزیرِ اعظم کی ہدایت صرف قیمتوں کو رپورٹ کے حوالے سے ہے تو پھر یہ درست ہے اگر نرخوں پر ایکشن لینے کی بات اس ہدایت میں شامل ہے تو ایگزیٹو کا نظام درہم بھرم ہو جائے گا۔

آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی سالانہ گندم کی طلب ساڑھے پچیس ملین ٹن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک شخص کے لیے 120 کلو گرام گندم رکھی جاتی ہے۔

تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان گزشتہ چند برسوں سے گندم کا پیداواری ہدف حاصل کرنے میں نا کام رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سال یہ اضافہ شدت اختیار کر گیا ہے۔

ذخیرہ اندوزی سے متعلق عابد سلہری کہتے ہیں کہ جب طلب و رسد میں فرق کم ہو تو پھر ذخیرہ اندوزوں اور مافیا کو صورتِ حال خراب کرنے کا موقع مل جاتا ہے جس کی وجہ سے پھر شارٹ فال ہو جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں مہنگائی کے سبب ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے پیداوار پر لاگت بہت زیادہ ہو گئی ہے اور جب کسان کو مطلوبہ نرخ نہیں ملتا تو پھر یا تو کاشت میں کمی آ جاتی ہے یا پھر کسان فصل کی دیکھ بھال مناسب طریقے سے نہیں کرتا۔

ڈاکٹر عارف گوہیر نے واضح کیا کہ پڑوسی ممالک میں بیج، کھاد، ادویات، پانی اور بجلی کی قیمتیں پاکستان کی نسبت بہت ارزاں ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ملک زراعت میں تیزی سے نہ صرف ترقی کر رہے ہیں بلکہ ان کی پیداوار میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

زرعی ماہر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں جتنی بھی بنیادی فصلیں ہیں وہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید متاثر ہو رہی ہیں جب کہ کسان کو نئی سیڈ ورائٹی کی رسائی بہت کم ہے۔

ڈاکٹر عارف گوہیر کہتے ہیں انٹر گورنمنٹ پینل آن کلائیمنٹ چینج (آئی پی سی سی) کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر مزید بڑھے گا۔ تحقیق کے مطابق درجہ حرارت کے بڑھنے کی وجہ سے فصلوں میں پانی کی ضروریات بڑھ چکی ہیں جب کہ کسان اب بھی روایتی طریقوں سے فصلوں کو پانی دیتے ہیں۔

ان کے بقول گزشتہ برس اگست کے آخری ہفتے میں ملک میں درجہ حرارت مسلسل 42 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔ جس سے چاول کی فصل بُری طرح متاثر ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق فی ایکڑ فصل 20 فی صد کم ہوئی۔

XS
SM
MD
LG