پاکستان میں حکومت نے غیر معمولی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 17 سے 25 روپے فی لیٹر تک کا اضافہ کر دیا ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم اضافہ کیا گیا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ کے آخر میں اضافے یا کمی کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس سے قبل آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) حکومت کو اپنی سفارشات دیتی ہے کہ قیمتوں میں کتنا اضافہ ہونا چاہیے۔
گزشتہ روز حکومت نے غیر معمولی طور پر اوگرا کی سمری سے قبل اور جون کا مہینہ ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں فوری طور پر بڑھا دیں۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلامیہ جمعہ کی شام جاری ہوا جس کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 25.38 روپے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 21.31 روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت میں 23.50 روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 17.84 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے اعلان کے مطابق اس فیصلے کے بعد پیٹرول کی قیمت 74.52 روپے سے بڑھ کر 100.10 روپے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 80.15 روپے سے بڑھ کر 101.46 روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت 35.56 روپے سے بڑھ کر 59.06 روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 38.14 روپے سے بڑھ کر 55.98 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بحران
پاکستان میں گزشتہ ایک ماہ سے پیٹرول کا بحران ہے جو گزشتہ ماہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد سے شروع ہوا تھا۔
ماہِ جون کا اغاز ہوتے ہی ملک بھر کے پیٹرول پمپس پر پیٹرول کی قلت پیدا ہو گئی تھی جس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف مصنوعی قلت پیدا کرنے پر تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس معاملے کی تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ بعض آئل کمپنیز نے پیٹرول اسٹاک کر لیا تھا اور عوام کو سپلائی کے لیے فراہم نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے ملک بھر میں پیٹرول کی قلت پیدا ہوئی۔ اوگرا اور وزارتِ پیٹرولیم نے اس سلسلے میں تحقیقات کے بعد بعض کمپنیوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور حکومت نے ان کمپنیوں پر چار کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں صفر ہو جانے کے بعد بھی پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس حد تک کمی نہیں کی گئی جس قدر توقع کی جا رہی تھی۔ بلکہ حکومت پیٹرولیم لیوی میں چھ روپے اضافہ کر کے اسے بلند سطح تک لے گئی تھی۔
مقررہ تاریخ کے بجائے چار دن پہلے قیمتیں تبدیل
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ کے آخری دن تبدیلی کی جاتی ہے اور اگلے مہینے کی پہلی تاریخ سے نئی قیمتوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن حالیہ اضافہ معمول کے بر خلاف مہینے کے اختتام سے قبل ہی لاگو کر دیا گیا ہے۔
اس بارے میں حکومت نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملک کو درپیش مشکل معاشی صورتِ حال کے باعث یہ فیصلہ کیا گیا ہے جس کا فوری اطلاق کر دیا گیا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر حکومت پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے یہ فیصلہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے دباؤ میں کیا ہے اور اس فیصلے سے پیٹرولیم مافیا کو چار کروڑ روپے جرمانے کے بدلے 700 کروڑ روپے کا فائدہ پہنچایا گیا ہے۔
اس بارے میں معاشی امور کے تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ فیصلہ اس قدر عجلت میں کیوں کیا گیا؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ چار روز کے بعد قیمتوں میں اضافہ معمول کے مطابق کیا جا سکتا تھا لیکن اس طرح اچانک اضافہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟
فرخ سلیم نے کہا کہ عالمی سطح پر برینٹ آئل کی قیمتوں میں 18 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن ہمارے ہاں قیمتوں میں 33 فی صد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کی قیمت 30 روپے فی لیٹر فکس کر دی ہے لیکن اس کے ساتھ 'ایکس ریفائنری کوسٹ پرائس' کو بھی 90 فی صد تک بڑھا دیا ہے۔
چار دن قبل قیمتیں بڑھانے سے کیا آئل کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا گیا؟ اس سوال کے جواب میں فرخ سلیم نے کہا کہ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کا یومیہ استعمال تقریباً چار کروڑ لیٹر ہے۔
ان کے بقول اگر اس حساب سے اندازہ لگایا جائے تو بعض کمپنیوں نے ایک ماہ سے پیٹرول کی قلت پیدا کی ہوئی ہے اور اب وہ اربوں روپے کا فائدہ حاصل کریں گی۔ فرخ سلیم نے کہا کہ چار دن کا اضافہ تو ایک طرف اگر ایک ماہ کا حساب لگایا جائے تو آئل کمپنیاں 30 ارب روپے سے زائد کا منافع حاصل کریں گی۔
کرونا کے اثرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عوام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے قیمتیں کم ہونی چاہئیں تھی لیکن حکومت نے اس کے برعکس قیمتوں میں ایک ساتھ بڑا اضافہ کر کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر تمام اعداد و شمار پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت نے اس اقدام سے کیا حاصل کیا ہے۔
قیمتوں میں اضافہ کے بعد کی صورتِ حال
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے اعلان کے بعد عوام بڑی تعداد میں گھروں سے نکل آئے اور ملک بھر میں مختلف شہروں کے پیٹرول پمپس پر طویل قطاریں دکھائی دیں۔
عوام کی بڑی تعداد رات 12 بجے سے کم قیمت میں پیٹرول ڈلوا کر کچھ فائدہ اٹھانا چاہتے تھے لیکن طویل قطاروں اور رش کے باعث بیشتر افراد کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
اسلام آباد میں ڈپٹی کمشنر نے اعلان کیا کہ نوٹی فکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا اطلاق 26 جون سے ہی کر دیا گیا ہے جس کے بعد قیمتیں فوری طور پر بڑھ چکی ہیں۔ رات 12 بجے کے بجائے جس وقت نوٹی فکیشن آیا، پیٹرول پمپس نے اسی وقت سے نئی قیمتیں وصول کرنا شروع کر دیں۔
قیمتوں میں اضافے پر حکومت و اپوزیشن کا ردعمل
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے پیٹرول کی نئی قیمتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو جو واحد پالیسی معلوم ہے، وہ لوگوں سے پیسہ نکالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت اور مافیا کی جیت ہوئی ہے جب کہ عوام ہار گئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے اس اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بجٹ منظور ہوا نہیں اور حکومت نے پیٹرول 25 روبے فی لیٹر مہنگا کر کے عوام پر میگا مہنگائی بم گرا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تیل مافیا اسٹاک پہ راتوں رات اربوں روپے کمائے گی۔ اس میں کس کا کتنا حصہ ہے کیا نیب اس پر انکوائری کرے گا؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قیمتوں میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا جب عوام کو مزید ریلیف کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرول مہنگا کرنا غریب دشمنی ہے۔ عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال کر عمران خان اپنی نااہلی کی وجہ سے ڈوبتی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پہلے پیٹرول سستا کرا کر ذخیرہ کروایا گیا اور پھر مہنگا کر کے عمران خان نے مافیا کو فائدہ پہنچایا۔
دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ کرونا کی وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں کو متاثر کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایسا اضافہ نہیں دیکھا اسی وجہ سے قیمتوں میں نظرِ ثانی کرنا پڑی۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم اضافہ ہوا ہے۔ عوام کی فلاح حکومت کی پہلی ترجیح ہے اور ہم انہیں ریلیف دینے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گِل نے بھی اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں خام تیل کی عالمی منڈی میں قیمت 20 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 41.8 ڈالر فی بیرل پر پہنچ گئی ہے۔
ان کے بقول پچھلے 46 روز میں عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں 112 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس ہوش ربا اضافے کا اثر یقیناً ہماری پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بھی متوقع تھا۔
سوشل میڈیا پر حکومت پر سخت تنقید
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت کی جانب سے پہلا ردعمل شہباز گِل کی ٹوئٹ کی صورت میں آیا جس کے بعد متعدد سوشل میڈیا صارفین انہیں اور حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
کسی نے عمران خان اور اسد عمر کے مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے متعلق سابقہ ٹوئٹس شائع کر کے حکومت پر طنز کیا تو کوئی اسے پیٹرول مافیا کی فتح سے تعبیر کرتا رہا۔
ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ وہ یہ کہتے ہوئے افسردہ ہیں کہ حکومت ہار گئی ہے اور مافیا جیت گیا ہے۔
نامور صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ آئل کمپنیوں کو چار کروڑ کا جرمانہ کیا اور پانچ دن پہلے پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کر سات ارب کا فائدہ دے دیا گیا۔ یہ ہوتی ہے شفافیت۔
ثنا ملک نامی ایک ٹوئٹر صارف نے ایک تصویر پوسٹ کی جس پر لکھا ہوا تھا کہ نہ گاڑی میں پیٹرول ہوگا، نہ لوگ باہر نکلیں گے اور نہ ہی کرونا وائرس پھیلے گا۔
صہیب اعوان نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت مافیا کی ساتھی ہے۔ مافیا نے اس حکومت پر الیکشن میں کافی خرچہ کیا ہے اور اب حکومت انہیں بڑے منافع کے ذریعے فائدہ پہنچا رہی ہے۔