محنت کے بین الاقوامی ادارے آئی آیل او نے کہا ہے کہ جنگوں اور قدرتی آفات میں گھرے علاقوں میں رہنے والے بچوں کے متعلق یہ خطرہ بہت ہوتا ہے کہ وہ مشقت، انسانی اسمگلنگ سے لے کر جنسی استحصال اور زیادتیوں کا سب سے زیادہ نشانہ بن جاتے ہیں۔
بچوں سے مشقت کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر آئی ایل او نے حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں بچوں کی مشقت کی بد ترین اقسام کے خاتمہ کریں۔
دنیا اس وقت پناہ گزینوں اور نقل مکانی کے اپنے سب سے بڑے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ جس میں 65 لاکھ سے زیادہ لوگ جنگ اور ایذا رسانی کے باعث اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ خاندان اور سماجی نظاموں کے ٹوٹنے سے لے کر گھر، اسکول اور بسر أوقات سے محرومي تک کے خطرات میں سب سے زیادہ شکار ہونے والوں میں بچے شامل ہیں۔
محنت کے عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت لگ بھگ ایک کروڑ 68 لاکھ بچے ایسے ہیں جنہیں مشقت کے مسئلے کا سامنا ہے۔ ان میں 85 لاکھ بچے چائلڈ لیبر کی بد ترین اقسام کا شکار ہیں۔ ان اقسام میں بچوں کا غلامي جیسے حالات میں خطرناک کاموں مثلاً کان کنی اور زراعت میں اور جنگوں میں یا جسم فروشی کے لئے استعمال شامل ہیں۔
آئی ایل او نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں بچوں کی مشقت کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔ بحران اور نازک حالات سے نمٹنے سے متعلق آئی ایل اوکےسینیر ٹیکنیکل افیسر انصاف نظام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افریقہ میں بچے خاص طور پر استحصالی حالات کا شکار ہیں جہاں جنگ سے متاثرہ اکثر ملکوں میں مسلح گروپس بچوں کو چائلڈ سولجر کے طور پر بھرتی کر لیتے ہیں۔ ان ملکوں میں صومالیہ، جنوبی سوڈان جمہوریہ کانگو اور وسطی افریقی جمہوریہ شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کچھ مسلح گروپس بچوں کو انتہائی نوعیت کے تشدد کے واقعات میں استعمال کرتے ہیں مثلاً خود کش بمباروں کے طور پر یا انہیں زبردستی دلہنیں بنانا یا ان سے جنسی غلامي کا کا م لینا۔ اس لیے بچوں کے استحصال کی قسموں میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔
نظام کہتے ہیں کہ بچوں کو ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعوں میں بھی فوجی بچوں کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے اور وہ دوسری قسم کے استحصال کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن نظام کہتے ہیں کہ فلپائن اور میانمر جیسے مشرقی ایشیائی ملکوں میں بچے قدرتی آفات کے نتیجے میں مسائل کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاں بہت سے بچوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑتے ہیں۔ خاندان اپنے معاش کے ذرائع سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے اپنی کمیونٹی سے رابطے نہیں رہتے۔ وہ بے گھر ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی آبادیاں راتوں رات غریب ہو جاتی ہیں ۔ وہ اپنے آمدنی کے ذرائع کھو دیتے ہیں ۔ قدرتی آفات کے نتیجے میں اسکولوں کو یا تو نقصان پہنچتا ہے یا وہ تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بچے بہت آسانی سے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نظامی کہتے ہیں کہ لڑائیاں، قدرتی آفات کی نسبت دنیا کی توجہ زیادہ تیزی سے اپنی جانب مبذول کر سکتی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں یہ بات سست روی سے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے سانحات، مثلا ً خشک سالی، آب و ہوا کی تبدیلی اور سيلاب کے حوالے سے خاص طور پر درست ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ حالات بچوں کے لیے، جو بد کردار لوگوں کے استحصال کا آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں، اتنے ہی نقصان دہ ہیں جتنا کہ خود کشیدگیاں، جنگیں اور تنازعات۔