کراچی: چھوٹے چھوٹے ننھے ہاتھوں میں قلم کی جگہ چھری اور چاقو۔ یہ کہانی ہے پاکستان کے معاشی مرکز کہلانے والے شہر 'کراچی' کی مشہور مارکیٹ کے ایک کم سن بچے کی۔ یہ 13 سالہ ننھا مزدور راشد ہے، جو کراچی کی ایک مارکیٹ میں ایک مرغی فروش کی دکان پر محنت و مزدوری کرتا ہے۔
راشد کا شمار بھی پاکستان کے ان لاکھوں بچوں میں ہوتا ہے جو پڑھنے لکھنےاور کھیلنے کودنے کی عمر میں سخت محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔
کم سن 'چائلڈ لیبر'، راشد کی کہانی
اس ننھے مزدور کا تعلق پنجاب کے شہر بہاولپور کے ایک گاؤں سے ہے، جہاں سے اسکے غریب والدین نے محنت و مزدوری کیلئے اسے کراچی شہر بھیجا ہے۔
راشد نے گفتگو میں بتایا کہ ’میرے گھروالے بہاولپور میں رہتے ہیں۔ میرے ابو اور بڑے بھائی گاؤں میں کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں، جبکہ ابو نے مجھے پانچویں کلاس تک ایک اسکول میں پڑھانے کے بعد، کراچی دکان کے استاد کے پاس بھیج دیا ہے۔ اب پڑھنے کے بجائے کام کرتا ہوں‘۔
یہاں دکان پر میں کام کرتا ہوں۔ ابو کہتے ہیں کہ تمھیں شہر میں ہی کام کرنا ہے۔ ’میں استاد کے ساتھ ہی کھانا کھاتا ہوں اور ان کے گھر پر ہی سوتا ہوں یہاں میرے بڑے یہی ہیں‘۔
ایک سوال کے جواب میں اس ننھے چائلڈ لیبر نے معصومیت سے جواب دیا کہ ’گھر جانے کا دل تو کرتا ہے، مگر ابو کہتے ہیں تمھیں گھر نہیں اب شہر میں ہی کام کرنا ہے۔ میں مہینے میں ایک بار گھر جاتا ہوں اور اپنی تنخواہ جاکر امی اور بہنوں کو دیتا ہوں پھر واپس کراچی آجاتا ہوں۔‘
راشد نے مزید بتایا کہ وہ دن بھر میں 15سے 20 مرغیاں ذبح کرکے ان کا گوشت بناتا ہے جو اس دکان پر فروخت ہوتی ہیں۔
راشد اس دکان پر پورا دن محنت و مشقت کرتا ہے جس کی مزدوری اسے ماہانہ صرف آٹھ ہزار روپے تنخواہ کے طور پر ملتی ہے، جو وہ اپنے گھر میں دے آتا ہے۔
دکان کے مالک نے وائس آ امریکہ کو بتایا کہ اس کے والد نے اسے یہاں بھیجا ہے۔
بچوں سے مزدوری کرانے سے متعلق ایک سوال پر، دکان کے مالک نے کہا کہ ’یہان کوئی جرم نہیں۔ جب اسکے والدین راضی ہیں تو اس کی محنت عوض اجرت دیتے ہیں۔‘
راشد کی کہانی بھی پاکستان میں چائلڈ لیبر کرنے والے ان لاکھوں بچوں کی جیسی ہے جو کم عمری میں لکھنے پڑھنےاور کھیل کود کی عمر میں کسی نا کسی مزدوری پر اپنا بچپن گنوا دیتے ہیں‘۔
پاکستان میں چائلڈ لیبر کیخلاف کوئی قوانین موجود نہیں
پاکستان میں چائلڈ لیبر اب تک جرم تصور نہیں کیا گیا، جبکہ اس کے خلاف تاحال کوئی قوانین مرتب نہیں کئے جا سکے ہیں۔ دوسری جانب، سول سوسائٹی اور بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں بھی اب تک 'چائلڈ لیبر' کا خاتمہ نہییں کروا سکے'۔
پاکستان کے تاریک مستقبل کی عکاسی کرتے یہ کم سن مزدور اپنی کم عمری سے ہی بڑی بڑی مشقتیں اٹھانے پر مجبور ہیں، جسمیں کہیں ریاست ذمہدار ہے کہیں معاشرہ تو کہیں خود ان کے اپنے والدین۔
بین الاقوامی ادارے، 'انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مرتب کردہ اعداد و شمار میں ایشیائی خطے پر موجود پاکستان بھر میں محنت و مشقت کے مختلف کاموں سے وابستہ ایسے بچوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد بتائی گئی ہے‘۔