پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کے تحت مارخور، ہمالیائی آئیبکس اور نیلی بکری کے شکار کے لیے ملکی اور غیر ملکی شکاریوں کو بڑے پیمانے پر لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ لیکن ان علاقوں میں غیر قانونی شکار کی شکایات بھی عام ہو رہی ہیں۔
گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلی حیات کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر جبران حیدر کے مطابق اس سال چار استور مارخور، 100 ہمالین آئیبکس اور 14 نیلی بکریوں کے شکار کے لائسنس جاری کیے گے ہیں۔
یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا آغاز یکم نومبر سے شروع ہو جاتا ہے جو اپریل تک جاری رہتا ہے۔
سب سے زیادہ قیمت استور مارخور کے لیے ایک لاکھ 36 ہزار امریکی ڈالر خزانے میں جمع ہو چکی ہے۔
نیلی بکری کے لیے سب سے زیادہ 16 ہزار 700 امریکی ڈالر جب کہ ہمالیائی آئیبکس کے لیے آٹھ ہزار دو سو امریکی ڈالر کی بولی لگی ہے۔
البتہ شہریوں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے اکثر علاقوں میں غیر قانونی شکار کو بھی فروغ ملا ہے اور اس میں مقامی افراد کے ساتھ ساتھ سرکاری محکموں کے اہلکار بھی ملوث ہیں۔
چین کی سرحد سے ملحقہ پاکستان کے علاقے سوست سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ندیم رومی کا کہنا ہے کہ ہفتے کو خنجراب سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ہمالین آئیبکس کا غیر قانونی شکار کیا۔ تاہم علاقے کے عمائدین اور محکمہ جنگلی حیات کے اہل کاروں نے بروقت کارروائی کر کے ان افراد کو نوٹس جاری کر دیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جبران حیدر نے مزید بتایا کہ ہمالیائی آئیبکس کا غیر قانونی شکار ہفتے کی شام کو کیا گیا۔ اتوار کو اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے آنے کے بعد تین افراد کے خلاف گلگت بلتستان محکمہ جنگلی حیات ایکٹ 1975 کے تحت کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا اس ایکٹ کے تحت اگر کوئی بھی اس قسم کے جرم میں ملوث پایا جاتا ہے تو کم از کم دو سال قید اور غیر قانونی شکار کی مد میں جرمانہ حاصل کیا جاتا ہے۔ جبران حیدر کے مطابق اس وقت ایک آئیبکس کا غیر قانونی شکار کرنے پر 20 لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔
ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کیا ہے؟
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا باقاعدہ آغاز 98-1997 میں کیا گیا تھا۔
اس اسکیم کا بنیادی مقصد مارخور کے غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔ اس کے علاوہ مقامی آبادی کو اس عمل میں شامل کر کے اس نایاب جانور کا تحفظ بھی ممکن بنانا تھا۔
ٹرافی ہنٹنگ کی اس اسکیم کے تحت شکاری کم عمر اور مادہ مارخور کا شکار نہیں کر سکتے۔
ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کے تحت ملنے والی رقم کا 80 فی صد حصہ مقامی آبادی کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے، جب کہ باقی ماندہ محکمے کے اکاؤنٹ میں جمع کیا جاتا ہے۔
ندیم رومی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے پر مشتمل گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ جنگلی حیات، قیمتی معدنیات، زرعی پیداوار اور یہاں کے خشک میوہ جات قابل ذکر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں سفر کے دوران مارخور، نیلی بکری اور آئبیکس کو سڑک کنارے دیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سوست کے علاقے میں ٹرافی ہنٹنگ اسکیم سے حاصل ہونے والی آمدنی سے انفراسٹرکچر، طب اور تعلیم کے شعبے میں ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔
دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ اب بھی گلگت بلتستان کے بہت سارے ایسے علاقے ہیں جہاں پر غیر قانونی شکار تواتر سے کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسکردو سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی رجب علی قمر کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان وسیع و عریض علاقے پر مشتمل ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام علاقے ٹرافی اسکیم کی مد میں نہیں آتے اس لیے غیر قانونی شکار کی روک تھام میں مشکلات آ رہی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ چند سال سے نئے ' کمیونٹی کنٹرول ہنٹنگ ایریاز' کو اس اسکیم کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی کے پیشِ نظر مقامی افراد کے لیے سیزن میں پھر یہی کچھ رہ جاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلی حیات کے آفیسر جبران حیدر کے مطابق اس وقت پورے گلگت بلتستان میں 51 کمیونٹی کنٹرول ہنٹنگ ایریاز ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ آنے والے سالوں میں ان میں اضافہ کیا جائے گا جس سے نہ صرف یہاں کی سیاحت میں اضافہ ہو گا بلکہ مقامی علاقے بھی اس سے فیض یاب ہوں گے۔