دس دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا جا رہا ہے ۔ لیکن امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھا جاتا ہے اور جس کے قانون میں عوام کو ہر طرح کی مذہبی ، معاشرتی اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے ، اس کے ریکارڈ کے حوالے سے بھی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے اکثر سوالات اٹھاتے رہتے ہیں ۔
جان بولٹن اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں اور انسانی حقوق کے حوالے سےامریکہ کا زبردست دفاع کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اور تاریخ میں انسانی حقوق اور انفرادی آزادیوں کے دفاع میں امریکہ سب سے آگے ہیں ۔
پروفیسر ہیدار ہیرس واشنگٹن کی امرکن یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیومن رائٹس اور انسانی حقوق کے قوانین کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور انہیں اوباما انتظامیہ کی کی جانب سے گوانٹا نامو بے کے حراستی مرکز کو بند کرنے کے اعلان کے باوجود قیدیوں کو وہیں بند رکھنے پراعتراض ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک بھی انسانی حقوق کے حوالے سے خامیوں سے پاک نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے گوانٹا نامو میں کئی سال سے لوگوں کوبغیر کسی الزام اور مقدمے کے بند کر رکھا ہے ۔ میرے خیال میں یہ ہم امریکہ میں رہنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں ، اور عالمی برادری کا فرض ہے کہ اپنی انتظامیہ کو گوانٹا نامو کو بند کرنے کے معاملے پر جواب دہ بنانے اور ایسا لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش جاری رکھیں جس سے جن پر مقدمہ چل سکتا ہے ، ان پر مقدمہ چلے اور جنہیں آزاد کیا جا سکتا ہے ، انہیں آزادی دے دی جائے ۔
لیکن جان بولٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو گوانٹا نامو میں قید افراد کو حراست میں رکھنے کاحق ہے کیونکہ وہ دہشت گرد اور جنگی قیدی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ جنیوا کنوینشن کی شقوں کا اطلاق تمام ملکوں پر ہوتا ہے ۔ دہشت گردوں پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ جنیوا کنونشن کے مطابق آپ ایک جنگی قیدی کو اس وقت تک قید رکھ سکتے ہیں جب تک جنگ ختم نہ ہو جائے ۔ دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی لمبے عرصے تک جاری رہ سکتی ہے ۔ اگر دہشت گردوں نے غلط فریق کا ساتھ دیا ہے اور لمبے عرصے سے گوانٹا نامو میں ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے ، ہمارا نہیں ۔
ہیدار ہیرس کو امریکہ میں موت کی سزا پر بھی اعتراض ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ موت کی سزا اور اس پر مسلسل عمل درآمد بےحد تشویشناک بات ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ موت کی سزا کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے ۔ڈیتھ پینلٹی انفارمیشن سینٹر کے مطابق اس سال امریکہ میں چالیس افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا ہے ۔
مائیکل پرانزینو جو امریکہ میں موت کی سزا کے حامی گروپ تھرو اوے دا کی سے تعلق رکھتے ہیں ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قاتل کو موت کی سزا ملنے سے مقتول کے لواحقین کے دکھ میں کمی آتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بحث کو اسی نکتے پر مرکوز کر کے دیکھنا چاہئے ، کہ جب لوگ قتل ہوتے ہیں تو ان کے خاندان کتنی تکلیف میں رہتے ہیں ۔
انسانی حقوق کے کارکن اقوام متحدہ کےاہم معاہدوں کی توثیق نہ کرنے پر بھی امریکہ پر نکتہ چینی کرتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اراکین کی اکثریت نے خواتین کے خلاف امتیازکے خاتمے کے کنونشن کی توثیق کر دی ہے لیکن اب تک امریکی سینیٹ نے ایسا نہیں کیا ۔
جان بولٹن کہتے ہیں کہ امریکی قوانین میں پہلے ہی بچوں اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی نمائندہ حکومت کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے لئے کیا مناسب ہے ۔ ہمیں کسی بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت نہیں جو بتائے کہ ہمیں کیسے کام کرنا ہے ۔
جان بولٹن کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو امریکہ کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کرتے ہیں ۔ انہیں ان ملکوں کے ریکارڈ پر بھی نظر رکھنی چاہئے جہاں جمہوریت نہیں ہے ۔ جیسے ایران اور چین ۔