دو برس میں پہلی بار امریکہ اور چین انسانی حقوق کے موضوع پر ایک بار پھر بات چیت شروع کریں گے ۔ ان میٹنگوں سے جو امریکی محکمۂ خارجہ میں ہوں گی یہ اشارہ ملتا ہے کہ مہینوں کی کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں استحکام آ رہا ہے ۔چین کے وفد کی قیادت، وزارتِ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے انٹرنیشنل آرگنائزیشن، Chen Xu کریں گے ۔
یہ میٹنگ فروری میں ہونا تھی لیکن امریکہ کی طرف سے تائیوان کو اسلحہ کی فراہمی اور تبت کے جلا وطن روحانی پیشوا دلائی لاما کے ساتھ صدر اوباما کی ملاقات پر چین کی ناراضگی کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی۔آخری بار اس موضوع پر بات چیت مئی 2008 میں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے 2002 سے 2008تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان پی جے کرولے نے کہا ہے کہ ان میٹنگوں کا مقصد انسانی حقوق کے موضوع پر چین کو لکچر دینا نہیں ہے بلکہ اسے یہ سمجھنے میں مدد دینا ہے کہ یہ مسائل واشنگٹن کے لیے کیوں اہم ہیں۔
کرولے کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کے مسائل پر میٹنگ الگ سے ہوگی۔ تا ہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانی حقوق اس دو روزہ اسٹریٹجک اور اقتصادی مکالمے کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوں گے جو بیجنگ میں 23 مئی سے شروع ہونے والا ہے ۔ ’’چین کے ساتھ ہمارا تعلق بہت وسیع ہے اور اس میں بہت گہرائی ہے ۔ اس میں بہت سے شعبے شامل ہیں۔ انسانی حقوق اس کا ایک مرکزی عنصر ہیں۔ تمام ایسے امور جن کا تعلق انسانی حقوق سے بنتا ہے، وہ چاہے انٹرنیٹ کی آزادی ہو، معلومات تک رسائی ہو، ذہنی تخلیقات کے حقوق ہوں، یہ سب اس بحث کا اہم جزو ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کے امریکی گروپ کہتے ہیں کہ مارچ میں محکمۂ خارجہ کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین کا ریکارڈ خراب ہے اور بعض کیسوں میں یہ ریکارڈ گذشتہ سال اور زیادہ خراب ہو گیا تھا۔ اس لیے چین کے ساتھ اس مسئلے پر بات چیت کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے۔لیکن امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ,یا USCIRFسے وابستہ اسکاٹ فلپسی کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کے بارے میں عام سطح کی میٹنگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر ان کے نتیجے میں صرف بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق رائے ہوتا ہو ۔
فلپسی کہتے ہیں کہ وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن ہی بیجنگ کے اسٹریٹجک مکالمے میں انسانی حقوق کے مسائل اٹھا سکتی ہیں۔ ’’ہمارا موقف یہ ہے کہ مذہبی آزادی کے مسئلے کو اسٹریٹجک اور اقتصادی ڈائیلاگ میں اٹھایا جانا چاہیئے اور حکومت کی سطح پر انسانی حقوق کی ایک یکساں اسٹریٹجی ہونی چاہیئے تا کہ چینیوں کو یہ پیغام نہ ملے کہ انسانی حقوق میں ہماری دلچسپی ہمارے دوسرے تمام مفادات سے منسلک نہیں ہے۔‘‘
اس مہینے امریکی کانگریس کے چارٹر کے تحت بنے ہوئے لیکن امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ چین بڑے منظم طریقے سے مذہب یا عقائد کی آزادی کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں تبت کے بدھ اور مسلمان اوغر علاقوں میں حالات نمایاں طور پر خراب ہو گئے ہیں۔کمیشن نے سفارش کی کہ امریکہ چین کے صوبائی لیڈروں پر جہاں حقوق کی خلاف ورزیاں بہت سنگین ہیں، پابندیاں عائد کرے۔
ہیومن رائٹس واچ کی صوفیہ رچرڈسن کہتی ہیں کہ بظاہر چینی حکومت کو ڈائیلاگ پسند نہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈائیلاگ کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہے۔’’انسانی حقوق پر مکالمہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ چینی حکومت کو یہ طریقہ پسند نہیں۔ وہ یہ بات پسند نہیں کرتے کہ سال میں ایک دو بار بیٹھ کر اس موضوع پر بات کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح کوئی تعمیر، با معنی مذاکرات ہو تے ہیں، لیکن میرے خیال میں یہی وجہ اس بات چیت کو جاری رکھنے کے لیے کافی ہے ۔‘‘
ایمنیسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے کے ٹی کمار کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ دو طرفہ ڈائیلاگ کیے جائیں لیکن اس مسئلے کو آنے والے وزارتی سطح کی بات چیت میں شامل کیا جانا چاہیئے۔ وہ کہتےہیں کہ بیشتر شعبوں میں چین کا ریکارڈ پہلے جیسا ہی ہے لیکن کچھ شعبوں میں خاص طور سے مغربی سنکیانگ کے صوبے کےاوغرو ں کے ساتھ اور انسانی حقوق کے وکیلوں کے ساتھ اور زیادہ خراب ہو گیا ہے ۔
ٹی کمار نے صر ف ایک مثبت فیصلے کا ذکر کیا۔ 2007 میں چین نے سزائے موت کے کیسوں میں سپریم کورٹ کی طرف سے جائزہ لینے کے طریقے کو بحال کر دیا ۔ اس طرح چین میں سزائے موت دی جانے کی رفتار سست ہو سکتی ہے ۔
ماضی کے مکالموں میں چین نے انسانی حقوق کے شعبے میں امریکی کارکردگی کے بارے میں شکایتیں کی ہیں۔ مارچ میں امریکی محکمۂ خارجہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ کے اجرا کے بعد، چین نے امریکی حکومت کی طرف سے انتہائی سنگین خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس نے پُر تشدد جرائم، پولیس کے بے رحم سلوک اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کےنام پر حکومت کی طرف سے امریکیوں کی جاسوسی کرنے کے الزامات عائد کیے۔