انسانی حقوق کے ایک ادارے ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میانمر کی شورش زدہ ریاست راکین میں پچھلے تین مہینوں کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے فورسز کے خلاف حملوں کے رد عمل میں روہنگیا مسلمانوں کے سینکڑوں گھر اور عمارتیں جلانے کی ذمہ داری حکومت اور فوج پر عائد ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 اکتوبر کے بعد سے حکومتی فورسز کم از کم 1500 عمارتوں کو نذر آتش کر چکی ہیں، اور بعض واقعات میں پوری کی پوری بستیاں جلا ڈالی گئیں، جس کے نتیجے میں روہنگیانسل کے مسلمانوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائڑیکٹر برینڈ ایڈمز نے کہا کہ نئی معلومات برما کی فوج اور حکومت کے ان دعوؤں کی نفی کرتی ہیں کہ اپنی بستیوں کو آگ لگانے کے ذمہ دار روہنگیا عسکریت پسند ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاوير اور عینی شاہدین کے بیانات واضح طور پر اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ فوج نے گھروں اور عمارتوں کو آگ لگائی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آتش زدگی کے کئی واقعات منظم انداز میں عمارتوں کی تباہی کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے جب فوج ان علاقوں میں موجود تھی۔
کئی الگ الگ واقعات میں بستیوں کو آگ ایسے موقع پر لگائی گئی جب عسکریت پسندوں کے حملے کے چند گھنٹوں کے بعد حکومتی فورسز جوابی کارروائی کے لیے علاقے میں داخل ہوئیں تھیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ فوجیوں نے گھاس پھونس کی بنی ہوئی جھگیوں کو جلانے کے لیے ان پر پٹرول چھڑکا اور راکٹ لانچر استعمال کیے۔
ایک عینی شاہد عبدل نے بتایا کہ 12 اکتوبر کو اپنی جان بچا کر بھاگنے سے کچھ ہی پہلے فوج نے اس کی بستی کو آگ لگائی اور لوگوں پر گولیاں چلائیں۔
پچھلے ہفتے ایک درجن سے زیادہ سفارتی مشنز نے میانمر کی حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ ریاست راکین میں انسانی ہمدوردی کی امداد کو جانے کی اجازت دے۔ یہ ریاست دو مہینے پہلے فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے عملی طور پر دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔
میانمر کی حکومت دو مہینے پہلے دهشت گردی کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد سے زیادہ تر صحافیوں اور امدادی اداروں کو ریاست راکین کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر چکی ہے۔ دهشت گردی کے اس واقعہ میں 9 سرحدی محافظ نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔