انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک ایلچی نے میانمار کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف "اداراہ جاتی امتیاز" کو ختم کرنے کو اپنی ترجیح بنائے۔
نمائندہ خصوصی بانگھی لی نے اس ملک کے اپنے دو ہفتے کے دورے کے بعد جمعہ کو صحافیوں کو بتایا کہ (ایسی قدغنیں زندگی کے تمام پہلوؤں بشمول بنیادی سہولتوں اور ضروریات زندگی تک رسائی کو بری طرھ متاثر کرتی ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ "یہ واضح ہے کہ میانمار کے معاشرے میں مذہبی بنیادوں پر کشیدوں بدستور وسیع ہے۔ نفرت انگیز تقریر، امتیازی سلوک کو ہوا دینا، نفرت اور تشدد پر مبنی واقعات اور مذہبی عدم برداشت باعث تشویش ہے۔"
انھوں نے کہا کہ مذہبی تشدد میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی میں حکومت کی طرف سے اس بنیاد پر لیت و لعل سے کام لینا کہ اس سے کشیدگی مزید بڑھے گی، ایک غلط پیغام دیتا ہے۔
لی نے اندرون ملک بے گھر ہونے والے مسلمان روہنگیا افراد کی کیمپوں میں حالت زار پر بھی شدید تنقید کی۔ انھوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ ان لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی کو نرم کرے جو کہ روزگار کی تلاش میں ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
امن کی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے ملک میں تقریباً پچاس سال تک رہنے والی حکومت کے بعد رواں برس مارچ میں اقتدار سنبھالا تھا۔
لیکن اکثریتی بدھ برادری اور دیگر مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف عدم اعتماد اور نفرت کی خلیج کم نہیں ہو سکی ہے۔