رسائی کے لنکس

بھارت: مسلمانوں پر 'تشدد' اور 'نفرت انگیزی' کے خلاف ہندو مذہبی تنظیموں کا اظہارِ مذمت


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مبینہ تشدد اور نفرت انگیز تقریروں کے خلاف بھارت اور امریکہ کی ہندو مذہبی تنظیموں اور مذہبی شخصیات بھی آواز اٹھارہی ہیں۔

اس سلسلے میں امریکہ سے سرگرم ہندو تنظیموں، مندروں کے مذہبی پیشواؤں، سرکردہ ہندو شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک بیان جاری کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی ، مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی اور حجاب پر پابندی جیسے واقعات کی مذمت کی ہے۔

یہ بیان نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوا ہے۔نئی دہلی سمیت بھارت کے دیگر شہروں میں واقع متعد ہندو آشرموں، ہندو مذہبی تنظیموں اور ہندو شخصیات نے بھی اس بیان کی حمایت کی ہے ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ بھارت اور دوسرے ملکوں میں بہت سے ہندوؤں نے ایک صدی پرانے ہندوتوا کے اس سیاسی نظریے کو قبول کر لیاہے جو دیگر مذاہب کے شہریوں کو غیر ملکی سمجھتا ہے اور یہ کہ وہ بھارتی شہریت کے حق دار نہیں ہیں۔

بیان میں مسلمانوں کے خلاف ہریدوار اور دیگر مقامات پر مذہبی اجتماعات میں بعض ہندو مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھار ت میں ہندوازم کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مشترکہ بیان میں مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی اور کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی جیسے کئی واقعات کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان واقعات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

’یہ ہندو روایات کے خلاف ہے‘

اس مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ہندوؤں کو اس نفرت انگیزی کے خلاف بہت پہلے بولنا چاہیے تھا اور اپنی اجتماعی خاموشی توڑنی چاہیے تھی کیوں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہندوؤں کی روایات اور مذہبی تعلیم کے منافی ہے۔

بیان کی حمایت کرنے والوں میں دار الحکومت دہلی سے متصل نوئیڈا میں واقع ایک ہندو مذہبی ادارے ’سروا دھرم سنسد‘ کے قومی کنوینر گوسوامی سوشیل جی مہاراج بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں اس قسم کے واقعات پیش آرہے ہیں۔

انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہونے والی اشتعال انگیزی اور پُرتشدد واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ کسی دوسرے مذہب کے خلاف بولنے یا اشتعال انگیزی کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت کا آئین سب کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی دیتا ہے اور ایک دوسرے کے مذہب کے احترام کی بات کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ منتخب عوامی نمائندے آئین کا حلف اٹھاتے ہیں۔ انھیں اس حلف کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔ اس وقت ہندوتو اکے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ آئین کے خلاف ہے۔

خانہ جنگی کا اندیشہ

متعدد مبصرین اور تجزیہ کاروں نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر حکومت نے اس قسم کی سرگرمیوں کو نہیں روکا اور ان میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی نہیں کی تو ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔

گوسوامی سوشیل جی مہاراج بھی اس اندیشے کا اظہار کرتے ہی۔ ان کے بقول یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کو روکنے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری حکومت کی ہے۔

حالیہ دنوں میں شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں جہاں 10 اپریل کو ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مبینہ طور پر تشدد میں ملوث اقلیتوں کے مکانات اور دکانیں منہدم کردی گئی تھیں۔اس کے بعد بعض ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے اور اس بارے میں ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

رپورٹس کے مطابق کھرگون میں 25 اپریل کو ایک وین کے ذریعے لاؤڈ اسپیکر سے ایسی کال دی گئی تھی جبکہ ایک مندر میں منعقدہ ایک تقریب میں شریک ہندوؤں سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کا حلف لیا گیا تھا۔

کھرگون کے ایس پی روہت کیشوانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں ایک رپورٹ درج کر لی گئی ہے اور ویڈیو کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

گوسوامی سوشیل جی مہاراج اس قسم کی اپیلوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے سماج میں نفرت کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور بھائی چارہ ختم ہوتا ہے۔

حجاب پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی نہیں، بھارتی عدالتی فیصلہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:57 0:00

انھوں نے جے پور میں منعقدہ ایک افطار پارٹی میں اپنی شرکت کے حوالے سے کہا کہ تمام مذاہب کے سنجیدہ افراد موجودہ صورتِ حال سے پریشان ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری آواز کمزور پڑ رہی ہے۔

وزیر اعظم کے نام ایک سو سے زائد سابق افسروں کا خط

بھارت کے 108 سابق آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسروں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ اس وقت ملک میں فرقہ وارایت کا دور چل رہا ہے۔

انھوں نے وزیر اعظم کی خاموشی پر سوال اٹھایا اور ان سے خاموشی توڑنے اور نفرت کی سیاست کو ختم کرنے کی اپیل کی۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم ملک میں نفرت انگیز تباہی کا جنون دیکھ رہے ہیں جہاں نہ صرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے بلکہ آئین کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔

خط میں دہلی، آسام، ہریانہ، گجرات، کرناٹک، اترپردیش اور اتراکھنڈ کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ دہلی کو چھوڑ کر باقی تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ دہلی میں بھی پولیس مرکزی وزیر داخلہ کے ماتحت ہے۔ ان ریاستوں میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا کیا جا رہا ہے۔

کیا یورپ میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:40 0:00

’کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ‘ کی جانب سے جاری ہونے والے خط پر دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، قومی سلامتی کے سابق مشیر شیو شنکر مینن، سابق خارجہ سکریٹری سجاتا سنگھ، سابق داخلہ سیکریٹری جی کے پلئی، سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے چیف سیکریٹری ٹی کے اے نائر اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ”ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ“ (را) کے سابق سیکریٹری اے ایس دُلت شامل ہیں۔

سروا دھرم سنسد کے کنوینر گوسوامی سوشیل جی مہاراج بھی اس خط کی تائید کرنے والوں میں شامل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو اس معاملے پر اپنی خاموشی توڑنی چاہیے۔

انھوں نے وزیر اعظم کے نعرے ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ یعنی سب کی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف یہ نعرہ لگایا جاتا ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم موجودہ صورت حال پر خاموش ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ وزیر اعظم کو بولنے کی ضرورت ہے۔ وہ اگر بولیں گے تو اس کا اثر پڑے گا۔

نجیب جنگ نے متعدد میڈیا اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم مودی کی بات لوگ سنتے ہیں۔ اگر وہ ایک اشارہ کر دیں تو یہ واقعات رک جائیں گے۔

سوشیل جی مہاراج کے مطابق مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں میں کچھ ایسے ہیں جو ہندوتوا کی سیاست سے متاثر ہیں اور کچھ غیر سماجی عناصر ہیں جن کا کام ہی اس قسم کی شرانگیزی کرنا ہے۔

انھوں نے ہریدوار اور دیگر مقامات پر منعقدہ دھرم سنسدوں میں ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیلوں کی مذمت کی اور کہا کہ اس قسم کی باتیں ملک اور معاشرے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔

دریں اثنا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں جمعرات کو ایک پروگرام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تشدد سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔ انھوں نے تمام برادریوں کو ایک ساتھ لانے اور انسانیت کے تحفظ پر زور دیا۔
مسلمانوں سے اپیل
مذہبی امور سے متعلق مسلمانوں کے اجتماعی فورم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘، جمعیت علماءہند اور 14 مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے ایک کھلا خط جاری کرکے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ عید الفطر کے موقع پر عیدگاہ جاتے اور آتے وقت تحمل اور صبر سے کام لیں اور کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کے شکار نہ بنیں۔
انھوں نے عید الفطر کے اجتماعات کے خطیبوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا خطبہ بہت واضح انداز میں دیں تاکہ ان کی باتوں کو دوسرا رنگ نہ دیا جا سکے۔
خط میں یہ بھی اپیل کی گئی ہے کہ اس موقع پر دوسرے مذاہب کے نمائندوں اور پولیس و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ میڈیا کے اہل کاروں کی موجودگی کو بھی یقینی بنائیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کا بھی انتظام کریں۔
بعض مقامات پر مسلم شخصیات نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ مسلمان سڑکوں اور کھلے مقامات پر نماز عید ادا کرنے سے بچیں اور صرف عید گاہوں یا مسجدوں ہی میں عید کی نماز پڑھیں۔
حکومت کا مؤقف

ادھر اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے بھارت کے دورے پر آئے یورپی یونین کے چھ رکنی وفد کے سامنے یہ واضح کیا کہ نریند رمودی حکومت میں گزشتہ سات آٹھ سال کے درمیان بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔

انھوں نے روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے یورپی وفد کو بتایا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں 2014 تک اقلیتوں کی نمائندگی چار فی صد تھی جو اب بڑھ کر 10 فی صد ہو گئی ہے۔

نقوی نے مزید کہا کہ وزیر اعظم مودی کو بدنام کرنے کے لیے جرائم کے متعدد واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا۔

نقوی کے بقول وفد نے وزیر اعظم کے نام سابق افسروں کے خط اور اقلیتوں کے خلاف تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہےلیکن میں نے واضح کیا کہ تشدد کے اکا دکا واقعات ہوئے ہیں اور مودی حکومت نے بلا لحاظ مذہب و برادری تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہے۔

یورپی وفد کے ایک رکن نے مذکورہ اخبار کو بتایا کہ انسانی حقوق اور اقلیتوں کی صورت حال پر مختار عباس نقوی کے ساتھ تبادلہ خیال ہوا جس دوران بھارت میں حالیہ تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG