رسائی کے لنکس

نئی دہلی میں مسلمانوں کی املاک گرانے کے الزامات، بی جے پی کو تنقید کا سامنا


سپریم کورٹ نے تجاوزات کے نام پر جہانگیر پوری میں آپریشن روکنے کے احکامات دیے ہیں۔
سپریم کورٹ نے تجاوزات کے نام پر جہانگیر پوری میں آپریشن روکنے کے احکامات دیے ہیں۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود نئی دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت اس حکم عدولی کا سنجیدگی سے جائزہ لے گی۔

جمعرات کو سماعت کے دوران بھارتی سپریم کورٹ کے ججز نے ریمارکس دیے کہ جہانگیر پوری میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کو آئندہ حکم نامے تک دو ہفتے تک روک دیا جائے۔

خیال رہے کہ نئی دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ہفتے کو ہندوؤں کے ایک مذہبی جلوس کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ پولیس نے اس حوالے سے کم از کم 25 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے منگل کی شام کو ایک عام نوٹس جاری کرکے علاقے میں مبینہ تجاوزات کو ہٹانے کے لیے انہدامی کارروائی کا اعلان کیا گیا اور بدھ کی صبح نو بجے وہاں متعدد بلڈوزروں سے انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی تھی۔

مسلمان رہنماؤں نے اس کارروائی کو علاقے میں مقیم مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ سے رُجوع کیا تھا۔

چیف جسٹس این وی رمنا نے اپیل منظور کرتے ہوئے حکم صادر کیا تھا کہ انہدامی کارروائی روک دی جائے، لیکن عدالتی حکم کے باوجود انہدامی کارروائی ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی جس پر مذکورہ وکلا نے عدالت کی توجہ مبذول کرائی۔

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کو اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے انہدامی کارروائی پر دو ہفتے کے لیے پابندی لگاتے ہوئے میونسپل کارپوریشن، دہلی پولیس، دہلی اور مرکزی حکومت کو نوٹسز بھی جاری کیے ہیں۔

سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل دشینت دوے نے کہا کہ جہانگیرپوری میں ایک مخصوص فرقے کو ہدف بنایا گیا اور وہاں ہونے والے تشدد کے مبینہ ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے یہ کارروائی کی گئی ہے۔

میونسپل کارپوریشن اور دہلی پولیس کی جانب سے پیش ہونے والے سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے اس الزام کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ اس انہدام کا مقصد فٹ پاتھ سے چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے کہ میز کرسی وغیرہ ہٹانا تھا۔ اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا اس کے لیے اتنے بلڈوزرز کی ضرورت تھی۔


تشار مہتہ کی جانب سے کہا گیا کہ وہاں بہت سے لوگوں نے سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔

اس پر ایک درخواست گزار نے کہا کہ اس کے پاس تعمیرات کے قانونی ہونے کے کاغذات ہیں جو پولیس کو دکھائے گئے لیکن پھر بھی انہدامی کارروائی نہیں روکی گئی۔

رپورٹس کے مطابق منہدم کی جانے والی بعض دکانیں تیس اور چالیس برس پرانی تھیں اور وہ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے الاٹ شدہ تھیں۔ دکان مالکان نے پولیس او رکارپوریشن کے عملے کو کاغذات دکھانے کی کوشش کی لیکن انہیں دیکھنے سے انکار کر دیا گیا۔

اس انہدامی کارروائی میں مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی دکانیں توڑی گئی ہیں۔ جب کہ ایک مسجد کا گیٹ بھی توڑ دیا گیا ہے۔

جہانگیر پوری میں ہوا کیا تھا؟

جہانگیر پوری میں ہفتے کو ہندوؤں کی جانب سے نکالے گئے ایک مذہبی جلوس کے شرکا کا مسلمانوں سے تصادم ہوا تھا۔

جہانگیر پوری میں تشدد کے بعد جلوس کے شرکا اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ مسلمانوں نے جلوس پر پتھراؤ کیا جس کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑا۔

مسلمانوں کا الزام ہے کہ جلوس کے شرکا نے سی بلاک میں ایک مسجد کے سامنے رک کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے اور مسجد میں داخل ہونے اور وہاں اپنے پرچم لہرانے کی کوشش کی۔

اس کے بعد دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا نے شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن کے میئر راجہ اقبال سنگھ کے نام ایک خط میں کہا کہ غیر سماجی عناصر نے ہندوؤں کے جلوس پر پتھراو اور فساد کیا۔ لہٰذا ان کی جانب سے کیے جانے والے ناجائز قبضوں کو ختم کرنے کے لیے بلڈوزر چلائے جائیں۔ اگلے روز یعنی بدھ کو انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی۔

انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) کے چیئرمین ڈاکٹر این ڈی پنچولی کا کہنا ہے کہ دہلی کے جہانگیر پوری میں سیاسی مقاصد کے تحت مکانوں اور دکانوں کو منہدم کیا گیا۔

مبصرین کا الزام ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخاب میں فائدہ اٹھانے کے لیے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔

این ڈی پنچولی نے وائس آف امریکہ سے گفتگومیں اس الزام کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صرف دہلی کے جہانگیر پوری کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ کئی ریاستوں میں انہدامی کارروائی کی جا رہی ہے اور مسلمانوں اور اقلیتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی یو سی ایل کی جانب سے جلوس کے شرکا کے خلاف پولیس میں شکایت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ مسجد کے سامنے جو اشتعال انگیزی کی گئی ہے اس پر کارروائی کی جائے۔ کئی ویڈیوز بھی پولیس کو دی گئی تھیں۔ لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

ان کے مطابق جان بوجھ کر یہ افواہ پھیلائی جاتی ہے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے جلوس پر حملہ کر دیا۔ جب کہ جلوس کے شرکا اشتعال انگیز نعرے لگا کر مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں مسلمان خاموش رہتے ہیں اور کہیں رد ِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے جہانگیر پوری میں انہدامی کارروائی کے لیے مرکزی حکومت اور بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے حکومت کی جانب سے غریبوں اور اقلیتوں کو ہدف بنانے سے تعبیر کیا۔

ان کے مطابق یہ آئینی اقدار کا بھی انہدام ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بی جے پی کو چاہیے کہ وہ اپنے دلوں میں موجود نفرت کو بلڈوز کرے۔


دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے بھی بی جے پی اور مرکزی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا۔ ان کے بقول بی جے پی کے صدر دفتر کو منہدم کیا جانا چاہیے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے انہدامی کارروائی کو غریبوں کے خلاف جنگ قرار دیا۔

انہوں نے بدھ کو متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کے بعد اس معاملے میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے بی جے پی اور عام آدمی پارٹی دونوں کو ذمہ دارٹھہرایا۔

ادھر بی جے پی کا الزام ہے کہ جہانگیر پوری میں فساد میں ملوث افراد نے سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہدامی کارروائی سے قبل لوگوں کو نوٹس دیا جانا ضروری ہے۔ لیکن جہانگیر پوری میں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔

این ڈی پنچولی کے مطابق دہلی میں سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کا تنازع بہت پرانا ہے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنز ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ بغیر نوٹس دیے ایسی کارروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔

ان کے مطابق گائیڈ لائنز میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی مکان کو منہدم کرنا ہے تو سب سے پہلے اس کے مکینوں کو رہنے کے لیے متبادل جگہ دینی ہوگی۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق دہلی میں 1721 غیر مستقل کالونیاں ہیں اور اکثر مقامات پر ناجائز قبضے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن سوال کرتے ہیں کہ کیا کاپوریشن امیروں کی کالونیوں میں بھی ناجائز تجاوزات ہٹانے کے لیے انہدامی کارروائی کرے گی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG