’’کراچی میں دو بوندیں برس جائیں تو سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں، اب اگر طوفان آ گیا اور پورا دن بارش ہوئی تو اس شہر کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ میری دعا ہے کہ بارش نہ ہی ہو اور یہ طوفان بھی ٹل جائے۔‘‘
یہ کہنا ہے 25 سالہ مریم کا، جن کے لیے کراچی کا یہ موسم اب کسی بھی لحاظ سے رومانوی نہیں ہے۔ انھیں شہر میں چلنے والی تیز ہوائیں خطرناک طوفان کی آمد کا پیغام دے رہی تھیں۔ انھیں یہ فکر ہے کہ ان سمیت گھر سے باہر نکلنے والا ہر وہ شخص جو نوکری پیشہ ہے وہ کیسے اپنی منزل پر اور پھر گھر واپس پہنچے گا۔
انھیں یاد ہے کہ اگست 2020 میں ہونے والی بارش میں انھوں نے دفتر سے گھر پہنچنے کا آدھے گھنٹے کا سفر سات گھنٹوں سے زائد میں طے کیا تھا۔
پچاس سالہ مسز سیما دعا کر رہی ہیں کہ بارش نہ ہو۔ کیوں کہ گزشتہ برس کی بارش سے انہیں جو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا وہ اب تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔
ٹی وی پر چلنے والی موسم کی کوئی بھی خبر مسز سیما کی پریشانی میں اضافہ کر رہی ہے۔ ان کے اہلِ خانہ اپنے گھر کو اور سامان کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ان کا گھر نیا ناظم آباد میں ہے جہاں گزشتہ برس بارش کا پانی گھروں میں داخل ہو جانے کے بعد لوگوں کو گھر چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔
محکمۂ موسمیات نے کراچی کے جنوب مشرق میں موجود ڈپریشن کے سبب انتباہ جاری کرنا شروع کر دیے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکٹر میٹ کراچی سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ جمعے تک ڈپریشن سائیکلون میں تبدیل ہو گا جسے ’شاہین‘ کا نام دیا جائے گا یہ نام قطر نے تجویز کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سائیکلون سے کراچی کی ساحلی پٹی کو براہِ راست کوئی خطرہ نہیں ہے کیوں کہ وہ دور سے نکل جائے گا۔ اگر اس کا ٹریک شمال مغرب کی جانب رہتا ہے تو یہ امکان موجود ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ اور پسنی کے درمیان کہیں یہ ٹکرا سکتا ہے۔
کچھ روز قبل پاکستان نے ایک طوفان کا نام ’گلاب‘ تجویز کیا تھا جس نے بھارت کے ساحلی علاقوں میں خوب بارشیں برسائی تھیں۔ اب پاکستان کے ساحلی علاقوں کو ممکنہ طوفان کا سامنا ہے جس کے سبب کراچی جمعرات سے تیز ہواؤں کی لپیٹ میں ہے۔
اس طوفان کے نتیجے میں کراچی، حیدر آباد، ٹھٹھہ، بدین، دادو، اورماڑہ، پسنی، جیوانی، گوادر سمیت ان تمام علاقوں میں تیز آندھی کا اندیشہ ہے۔
طوفان سے سمندر میں طغیانی آ سکتی ہے۔ کراچی کے نشیبی علاقے اور جزیرے بھی اس سائیکلون کے سبب زیرِ آب آسکتے ہیں۔
محکمۂ موسمیات طوفان کو 2007 کے طوفان سے تشبیہ دے رہا ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ایک طوفان خلیج بنگال میں بنا تھا جو بھارت کےساحلی علاقے اڑیسہ سے ٹکرایا تھا اور پھر بحیرہ عرب میں آیا جس کے بعد اس نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں خوب تباہی مچائی تھہ۔ طوفان کے نتیجے میں کئی اموات بھی ہوئی تھیں اور تیز بارشوں سے سیلابی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔
سردار سرفراز کے مطابق جب بھی کوئی ایسا طوفان آتا ہے تو اس کے نتیجے میں اندازاََ 100 سے ڈیڑھ سو ملی میٹر بارش کا امکان ہوتا ہے۔ اسی ممکنہ صورتِ حال کے پیشِ نظر محکمۂ موسمیات نے کراچی اور سندھ کے نشیبی علاقوں کے لیے اربن فلڈ وارننگ جاری کر دی ہے۔
کراچی میں ممکنہ طوفان کے پیشِ نظر اور جاری کردہ انتباہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بیان میں کہا ہے کہ کراچی کی انتظامیہ متحرک ہے اور تمام ضروری انتظامات کر لیے گئے ہیں۔
ان کے مطابق بلدیہ کے تمام ادارے کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی)، واٹر بورڈ، سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بروڈ، ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز اور ٹریفک پولیس رین ایمرجنسی ڈیوٹی پر ہیں۔ جب کہ پراونشل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی مدد سے نشیبی علاقوں میں نکاسی کے لیے پمپ بھی لگا دیے گئے ہیں۔
مرتضیٰ وہاب کا یہ بھی کہنا تھا کہ موسم کی اس صورتِحال میں شہری غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلیں۔ کیوں کہ ایسی صورت میں باہر سڑکوں پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔
پاکستان فشر فوک فورم کے ترجمان کمال شاہ نے کہا کہ ممکنہ طوفان کی اطلاح ملتے ہی تمام ماہی گیر ساحل پر پہنچ چکے ہیں جو ماہی گیر پہلے سے سمندر میں موجود ہیں ان کی واپسی بھی شام تک ممکن ہو جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کمال شاہ نے کہا کہ جب تک صورتِ حال بہتر نہیں ہو جاتی۔ کوئی بھی ماہی گیر شکار کے لیے سمندر کا رخ نہیں کرے گا۔ اس وقت واپس آنے والے سیکڑوں ماہی گیروں کی کشتیاں جیٹی پر موجود ہیں۔