رسائی کے لنکس

'گوادر کو حق دو'، شہر میں خواتین کی 'سب سے بڑی' ریلی میں کیا مطالبات کیے گئے؟


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور دیگر حقوق کے حصول کے لیے ہزاروں خواتین نے ریلی نکالی۔ خواتین کی اس ریلی کو شہر میں نکلنے والی سب سے بڑی ریلی قرار دیا جا رہا ہے۔

منتظمین کا دعویٰ ہے کہ پیر کو 'گوادر کو حق دو' کے نام سے نکالی گئی اس ریلی میں 15 ہزار کے لگ بھگ خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔

اس احتجاجی ریلی میں گوادر کی 45 سالہ آمنہ بی بی بھی نے بھی شرکت کی اور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف نعرے لگائے۔ آمنہ کے شوہر اور دو بیٹے ماہی گیر ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آ گئی ہے روز ان کے شوہر اور بیٹے سمندر میں مچھلی کے شکار کے لیے جاتے ہیں مگر واپس خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔

آمنہ بی بی نہ صرف معاشی مشکلات سے دو چار ہیں بلکہ گوادر میں پینے کے صاف پانی کی قلت، بجلی کی بندش اور دیگر مسائل سے بھی نبرد آزما ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اکثر گوادر میں پانی کے بحران کا سامنا رہتا ہے اس سے سب سے زیادہ متاثر ہم خواتین ہی ہوتی ہیں۔ "مرد روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں اور گوادر کی خواتین پینے کے پانی کی تلاش میں نکل جاتی ہیں۔"

اُن کا کہنا تھا کہ اب ہم سب خواتین مجبور ہو کر سڑکوں پر نکل کر حکومت سے اپنا حق مانگ رہی ہے اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے تو ہم گوادر کی خواتین مردوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنے میں بھی شریک ہو سکتی ہیں۔

کیا بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے؟

بلوچستان میں سب سے پہلے خواتین جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلیں۔ کوئٹہ میں اکثر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے نکالی گئی ریلیوں اور جلسوں میں خواتین کی واضح شرکت نظر آتی ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ نور سمجھتی ہے کہ بلوچستان کے مکران ڈویژن میں خواتین میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنے سے متعلق شعور میں اضافہ ہوا ہے۔

حمیدہ کے بقول اس سے قبل بھی بلوچستان کے علاقے تربت میں خواتین نے بہت بڑی ریلی نکالی تھی اور اب یہ دوسری مثال گوادر کی ہے جس میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ احتجاج میں شریک ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ صوبے کے دیگر حصوں میں بھی خواتین کی جانب سے بنیادی سہولیات کے فقدان کی شکایات عام ہیں مگر قبائلی معاشرہ ہونے کی وجہ سے خواتین اپنی آواز بلند کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کرتی تھیں۔ لہذٰا گوادر میں خواتین کی ریلی بلوچستان کے دیگر حصوں کے خواتین کے لیے ایک مثال ہے۔

''گوادر کو حق دو'' تحریک کے مطالبات کیا ہیں؟

اس تحریک کے مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ سمندر میں غیرقانونی طور پر مچھلیوں کے شکار کا خاتمہ ہے۔ تحریک کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ صوبہ سندھ سے دو ہزار کے قریب ٹرالر بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالنگ کر رہے ہیں۔

تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کے غیر قانونی شکار کے دوران ممنوعہ جال بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف گوادر بلکہ مقامی ماہی گیروں کا معاشی قتل ہو رہا ہے اور سمندری حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

گوادر کو حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ اس سے قبل چین کے بھی چار سے پانچ ٹرالرز آئے اور مبینہ طور پر غیرقانونی شکار شروع کیا جس پر انہوں نے سخت ردِعمل دیا اور احتجاج کیا اور چینی ٹرالرز واپس لوٹ گئے۔

انہوں نے کہا کہ ''ایسا لگتا ہے کہ غیرقانونی طور پر مچھلی کا شکار کرنے والوں کے پیچھے بہت بڑا مافیا ہے اسی لیے ہمارا صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ گوادر تا مکران کی سمندری حدود میں غیر قانونی طور پر ٹرالنگ کو فی الفور روکا جائے۔''

مظاہرین کا دوسرا بڑا مطالبہ گوادر میں منشیات کا خاتمہ ہے۔ دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ نہ صرف گوادر بلکہ مکران ڈویژن منشیات کا گڑھ بن چکا ہے جس سے نوجوان متاثر ہو رہے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ منشیات کے اڈوں کے خلاف فی الفور آپریشن کیا جائے اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کیا جائے۔

دھرنے میں شامل مظاہرین کا ایک مطالبہ گوادر شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹوں کے ذریعے عوام کو بلا جواز تنگ کیا جاتا ہے۔

ان کے بقول سیکیورٹی چیک پوسٹیں ضرور بنائی جائیں مگر یہ عوام کی توہین کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے تحفظ کے لیے کام کریں۔

مولانا ہدایت الرحمن نے بتایا کہ گو کہ حکومت کی جانب سے بار بار مذاکرات کے لیے رابطہ کیا گیا اور مطالبات تسلیم کرنے کا نوٹی فکیشن بھی جاری ہو گیا مگر اصل مسئلہ عمل درآمد کا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے جو حکم نامے جاری کیے گئے ان میں صرف ایک پر 50 فی صد عمل درآمد نظر آتا ہے۔ حکومت نے صرف گوادر میں شراب کی تین دکانوں کو بند کر دیا ہے ہم چاہتے ہیں باقاعدہ لائسنس منسوخ کیے جائے۔

یاد رہے کہ گوادر کو حق دو تحریک کے تحت مطالبات کے حق میں عوامی دھرنا منگل کو 16 ویں روز بھی جاری رہا جس میں پانچ ہزار سے زائد افراد شریک ہیں۔

مظاہرین کے بیشتر مطالبات تسلیم کر چکے ہیں: حکومت

ادھر منگل کو صوبائی وزیر اور گوادر کو حق دو تحریک سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے رکن ظہور احمد بلیدی نے کوئٹہ پریس کلب میں گوادر اور مکران ڈویژن کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے تفصیلی پریس کانفرنس کی۔

ظہور بلیدی نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمن نے گوادر میں جیسے ہی دھرنے کا اعلان کیا تو حکومت نے تمام مطالبات پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ مولانا ہدایت الرحمان سے حکومت کی جانب سے مذاکرت کے تین دور ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے مطالبات جائز اور عوامی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دھرنے کے شرکا کے مطالبات کو سنا اور اس سلسلے میں باقاعدہ حکم نامے بھی جاری کیے، سندھ کی جانب سے غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والے آٹھ ٹرالرز کے خلاف گزشتہ روز کارروائی عمل میں لائی گئی ہے جب کہ سمندر میں محکمہ فشریز کا عملہ بھی مسلسل گشت کر رہا ہے اور ہم اس معاملے پر جلد ہی سندھ حکومت سے بھی بات کریں گے۔

ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ ہم نے بارڈر پر ٹوکن سسٹم کو بھی ختم کیا ہے، شہر کے تین شراب خانے بند کر دیے گئے ہیں جب کہ گوادر شہر میں موجود غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے پر ہم پہلے ہی کام کر رہے ہیں اس سلسلے میں بھی بہت جلد پیش رفت سامنے آئے گی۔

ظہور بلیدی نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمان خود یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ چیک پوسٹوں کے حوالے سے کافی بہتری آئی ہے اس لیے ان سے درخواست کرتے ہیں کہ مذاکرات کے راستے بند نہ کریں اور ہمیں کچھ وقت دیں کچھ مطالبات پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG