رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا میں غیرمسلم اقلیتی برادری پرحملوں میں اضافہ، ایک ہفتے کے دوران تیسری کارروائی


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

پاکستان کے شمالی مغربی صوبےخیبر پختونخوا میں شدت پسندی کے حالیہ واقعات میں جہاں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا وہیں صوبے کی اقلیتی برادری پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

منگل کو رات دیر گئے پشاور میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ فائرنگ کے باعث مذکورہ شخص شدید زخمی ہو گیا اور اسپتال میں زیر علاج ہے۔ یہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر تیسرا حملہ ہے۔

اس سے قبل صوبائی دارالحکومت پشاور میں گزشتہ تین روز کے دوران دو سکھ شہریوں کو ہدف بنا کر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے سکھ رہنما من موہن سنگھ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک جب کہ فائرنگ کے ایک اور واقعے میں ترلوگ سنگھ شدید زخمی ہو گئے تھے۔

پشاور پولیس نے سکھ رہنما من موہن سنگھ کے قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ من موہن سنگھ کا قتل ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے۔پشاور پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اب تک متعدد مشکوک افراد کو تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔

سکھ برادری کے رہنماؤں سردار گورپال سنگھ اور رادیش سنگھ ٹونی, مسیحی برادری کے جیکب اگسٹن اور ہندو برادری کے ہارون سربدیال نے وائس آف امریکہ سے علیحدہ علیحدہ بات چیت میں اقلیتی برداری کے افراد پر حملوں کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے اقلیتی برادری کے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔

پشاور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے اقلیتی چیئرمین سردار پرویندر سنگھ کی قیادت میں چھ رکنی وفد نے خیبر پختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل سے ملاقات کرکے اپنے تحفظات سے آگاہ کرچکا ہے۔انسپکٹر جنرل پولیس نے اقلیتی برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

پشاور میں دو مختلف واقعات میں دو سکھ افراد پر ہونے والے حملوں کے بعد نگراں وزیر اعلی محمد اعظم خان نے انسپکٹر جنرل پولیس اخترحیات گنڈاپور کو ان واقعات میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

سکھ برادری کے خلاف کارروائیاں

خیبر پختوانخوا میں شدت پسندانہ حملوں میں اقلیتی برادری آسان ہدف رہی ہے۔ سکھ برادری کے علاوہ صوبے کی احمدی اور مسیحی مذہبی برادری کے افراد کےخلاف تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ اقلیتی برادری پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

صوبے کے ضلع پشاور، بونیر، خیبر، چارسدہ اور دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں اور ان کی اکثریت کاروبار سے وابستہ ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں خاص طور پر سکھوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان حملوں کا شکار ہونے والے سکھوں کے بارے میں مصدقہ اعدادوشمار میسر نہیں ہیں تاہم سکھ برادری کے سماجی و مذہبی رہنما سردار گورپال سنگھ باباجی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ٹارگٹ کلنگ میں سکھ برادری کے 30 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

سردار گورپال سنگھ باباجی کا کہنا تھا کہ سکھ برادری کے جن افراد کو ہدف بنا گیا ان کی اکثریت یا تو تاجر تھے یا وہ حکمت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والوں میں سابق رکن صوبائی اسمبلی سردار سورن سنگھ اور سکھ رہنما سردار چرن جیت سکھ بھی شامل تھے۔

ان کے مطابق سردار سورن سنگھ سیاسی رقابت کا نشانہ بنے جب کہ چند ایک سکھ خاندان کے افراد کو عدم تحفظ کی وجہ سے خیبر پختونخوا سے نقل مکانی کر کے پنجاب متنقل ہونا پڑا۔

XS
SM
MD
LG