رسائی کے لنکس

مودی کا بھارت میں یونیفارم سول کوڈ پر اصرار؛ مسلم تنظیمیں معترض کیوں ہیں؟


حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور مسلم تنظیموں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی اس تقریر پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے جس میں انہوں نے ملک میں تمام مذاہب کے لیے یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) نافذ کرنے کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے وزیرِ اعظم پر عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

وزیر اعظم نے منگل کو بھوپال میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی یونیفارم سول کوڈ کی وکالت کی ہے لیکن جو لوگ ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہیں وہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اُنہوں نے سوال کیا کہ اگر ایک گھر میں ایک شخص کے لیے ایک قانون ہو اور دوسرے کے لیے دوسرا تو کیا وہ گھر چل پائے گا؟ جب گھر نہیں چل سکتا تو ملک دو قسم کے قانون سے کیسے چل سکتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں یونیفارم سول کوڈ پر مسلمانوں کو بھڑکا رہی ہیں۔

یونیفارم سول کوڈ کا مطلب ہے تمام مذاہب کے پرسنل لاز یعنی مذہبی قوانین کو ختم کرکے جن میں شادی بیاہ، طلاق، خلع، عدت، میراث، ولایت، بچوں کو گود لینے اور نان نفقہ کے قوانین شامل ہیں، ایک نیا قانون وضع کیا جائے جو ملک کے تمام مذاہب کے تمام شہریوں پر نافذ ہو۔

مبصرین کے مطابق بی جے پی کے تین اہم انتخابی ایجنڈے رہے ہیں یعنی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ اور ملک میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ۔ اول الذکر دونوں وعدے پورے ہو چکے ہیں۔ وہ اب یو سی سی کو آنے والے انتخابات میں اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھنا چاہتی ہے۔

وزیر اعظم کی تقریر کے بعد منگل کی رات بھارتی مسلمانوں کے متفقہ پلیٹ فارم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ‘ کی ایک آن لائن میٹںگ ہوئی جو تین گھنٹے چلی۔ بورڈ کے ذرائع کے مطابق میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ قانونی ماہرین سے مشورہ کرکے ایک تجویز ’لا کمیشن آف انڈیا‘ کو جولائی کے پہلے ہفتے میں پیش کی جائے گی۔

لا کمیشن نے حکومت کی ہدایت پر 14 جون کو اپنی ویب سائٹ پر ایک نیا سوال نامہ پوسٹ کیا ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس ویب سائٹ پر یو سی سی کے بارے میں اپنی تجویز پیش کریں۔

اس سے قبل بھی کمیشن نے تجاویز مانگی تھیں اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی تجویز پیش کی تھی۔

کمیشن نے 2018 میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت ایک کثیر مذہبی و کثیر ثقافتی ملک ہے۔ یونیفارم سول کوڈ نافذ العمل نہیں ہے اور یہ غیر ضروری اور غیر مطلوب ہے۔ حکومت اس کی رپورٹ کو ماننے کی پابند نہیں ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یو سی سی ملک کے لیے غیر ضروری اور نقصان دہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر ملک کے وسائل ضائع نہ کرے۔ ان کے مطابق یہ آئین کی روح کے منافی ہے جس میں عوام کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے 2016 میں لا کمیشن کو اپنا فیڈ بیک دیا تھا۔ کمیشن نے 2018 میں کہا تھا کہ کم از کم 10 سال یونیفارم سول کوڈ نافذ نہیں ہونا چاہیے۔


ان کے خیال میں وزیرِ اعظم کی یہ تقریر ایک سیاسی شعبدہ ہے تاکہ ایک ایسا ماحول بنایا جا سکے جس سے 2024 کے عام انتخابات میں فائدہ اٹھایا جائے۔

اس سے قبل مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت کے سامنے یو سی سی کا جو مجوزہ خاکہ ہے وہ اسلامی شریعت کے عائلی قوانین سے متصادم ہے۔ لہٰذا وہ مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔

بورڈ نے مسلم تنظیموں، مختلف پیشوں سے وابستہ افراد، قانونی ماہرین اور خواتین سے اپیل ہے کہ وہ لا کمیشن کی ویب سائٹ پر یونیفارم سول کوڈ کے خلاف اپنی تجویز پیش کریں۔

بعض مسلم تنظیموں اور شخصیات کی جانب سے اس معاملے پر محتاط حکمتِ عملی اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

ماہر اسلامیات اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا مسئلہ ہے۔

اُن کے بقول مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مختلف مذاہب کے نمائندوں کا اجلاس طلب کریں اور ان کے ساتھ مشورہ کرکے اتفاق رائے سے حکمت عملی مرتب کریں۔

انھوں نے کہا کہ لا کمیشن نے 2018 میں جو رپورٹ حکومت کو دی تھی اسے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے ایک رہنما اور وکیل اشونی اپادھیائے نے گزشتہ سال سپریم کورٹ میں ایک عذر داری پیش کرکے یونیفارم سول کوڈ کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت دینے کی اپیل کی تھی جس کی حکومت نے مخالفت کی تھی۔

یاد رہے کہ مرکزی وزارت قانون نے اس عذرداری کے جواب میں کہا تھا کہ وہ قانون بنانے کے سلسلے میں پارلیمان کو ہدایت نہیں دے سکتی۔ اس نے اشونی اپادھیائے کی عذرداری کو خارج کرنے کی اپیل کی تھی۔

پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ ہر شخص کو لا کمیشن میں جا کر اپنی تجویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں، یہ کام مسلم پرسنل لا بورڈ کا ہے۔ اس کا قیام ہی مسلمانوں کے پرسنل لا کے تحفظ کے لیے ہوا ہے لہٰذا اسے اس بارے میں پیش رفت کرنی چاہیے۔


جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایک بیان میں کہا کہ یونیفارم سول کوڈ کا مقصد مسلمانوں اور ہندوؤں میں فاصلہ پیدا کرنا ہے۔ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں مخالفت کرنے کے لیے سڑک پر نہیں اترنا چاہیے۔

جب کہ جمعیۃ العلما ہند کے دوسرے گروپ کے سیکرٹری نیاز احمد فاروقی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا بیان لا کمیشن کو متاثر کرنا اور اس معاملے پر عوام میں ایک بیانیہ تیار کرنا ہے۔ ان کے مطابق وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس معاملے پر اس طرح عوام میں جا کر اپنی بات رکھیں۔

کانگریس کے جنرل سیکرٹری کے سی وینو گوپال نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں منی پور کا کوئی ذکر نہیں کیا جہاں دو ماہ سے تشدد برپا ہے۔ انہوں نے بے روزگاری اور مہنگائی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ وہ عوام کی توجہ ملک کے اصل مسائل سے دوسری طرف منتقل کرنا چاہتے ہیں۔

تمل ناڈو میں کانگریس کی حلیف جماعت دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) کے ٹی کے ایس الانگوون نے کہا کہ یو سی سی پہلے ہندو مذہب پر نافذ ہونا چاہیے۔ دلتوں اور قبائلیوں کے ہر شخص کو ملک کے کسی بھی مندر میں پوجا کی اجازت ملنی چاہیے۔ آئین نے عوام کو مذہبی آزادی دی ہے لہٰذا ہمیں یونیفارم سول کوڈ نہیں چاہیے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے سوال کیا کہ کیا وزیر اعظم ملک کی تکثیریت اور رنگا رنگی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل، ٹی ایم سی اور بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کی ہے۔

عام آدمی پارٹی کاکہنا ہے کہ وہ اصولی طور پر یونیفارم سول کوڈ کی حامی ہے لیکن اس کا فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے اپنے بعض فیصلوں میں ملک میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی بات کہی ہے۔ اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 44 میں صرف ایک جملہ درج ہے کہ اسٹیٹ کو کوشش کرنی چاہیے کہ پورے ملک میں شہریوں کے لیے یکساں قانون کی ضمانت ہو۔

قانونی ماہرین کے مطابق آئین کی متعدد دفعات میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے لہٰذا یونیفارم سول کوڈ اس آزادی کی ضمانت سے متصادم ہے۔

دریں اثنا بی جے پی نے اپوزیشن کے اعتراض کو مسترد کر دیا اور کہا کہ آئین میں یو سی سی کو اسٹیٹ پالیسی کے طور پر اختیار کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اپنے متعدد فیصلوں میں اس کی توثیق کی ہے۔

مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آئین نے اسٹیٹ کو پورے ملک میں ایک جیسے قانون کے نفاذ کی ہدایت کی ہے۔ ان کے مطابق تمام استحصال زدہ شہریوں کو مساوی انصاف ملنا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG