25 جولائی کے انتخابی نتائج کے بعد اکثر تجزیہ کار یہ توقع کر رہے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کو حکومت چلانے کے لیے مشکل حالات کا سامنا رہے گا اور عددی اعتبار سے مضبوط حزب اختلاف اس پر حاوی رہے گی, مگر اپوزیشن کے اندرونی اختلافات نے پی ٹی آئی کی ساری پریشانیاں دور اور سارے مسائل حل کر دیے ہیں۔
صدارتی انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتے ہیں ۔ اس لیے اپوزیشن کے پاس بہتر منصوبہ بندی اور لابنگ سے یہ نشست جیتنے کا موقع موجود تھا، لیکن الیکشن سے چند گھنٹے پہلے تک حزب اختلاف کی جماعتیں کسی ایک نام پر متفق نہ سکیں اور اس پورے عرصے میں ان کی ساری توانائیاں کنو سنگ کی بجائے اتفاق رائے حاصل کرنے پر صرف ہوتی رہیں جس نے حکمران جماعت کے لیے یہ میدان مارنے کا راستہ ہموار کر دیا۔
پاکستان کے کچھ سیاسی تجزیہ کار پی ٹی آئی کی اس تازہ کامیابی کو مثبت قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس وقت بٹی ہوئی حزب اختلاف مستقبل میں کسی بھی وقت کسی بھی مسئلے پر متحد ہو کر حکومت کے لیے مشکلات پید ا کر سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ واشنگٹن کو ایک انٹر ویو میں یونیورسٹی آف پنجاب کے پولیٹیکل سائنس کی چیئر پرسن اور ڈائریکٹر سنٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز ڈاکٹر عنبرین جاوید نے عارف علوی کی کامیابی کو پی ٹی آئی کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے اہم حکومتی عہدوں کے بعد صدارتی عہدہ بھی ہاتھ میں آنے کے بعد اب پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے اپنی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کرانے میں آسانی پیدا ہو گی اور وہ حکومت کو زیادہ بہتر طریقے سے چلانے کے قابل ہو سکے گی۔
اس سوال پر کہ کیا مستقبل میں حزب اختلاف کی جماعتیں کبھی ایک صفحے پر آ سکیں گی؟ اور تمام اہم حکومتی عہدے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد بھی اگر اپوزیشن مستقبل میں کسی بھی مرحلے پر کسی بھی مسئلے پر متحد ہو گئی تو کیا وہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے پریشانی کا باعث بن سکے گی، عنبرین جاوید نے کہاکہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ حزب اختلاف اس وقت بٹی ہوئی ہے لیکن وہ ابھی بھی مضبوط ہے اور وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی مسئلے پر متحد ہو کر پی ٹی آئی کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے اور خاص طور پر پنجاب میں نون لیگ اس ضمن میں ایک کردار ادا کرتی رہے گی۔
کراچی یونیورسٹی آئی بی اے کی پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ حزب اختلاف کی جماعتیں متحد ہو کر پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے اب کوئی بڑی مشکلات پیدا کر سکیں گی ۔ان کی دلیل یہ تھی کہ وہ نہ تو کوئی متفقہ امیدوار سامنے لا سکیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی متفقہ حکمت عملی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر شور تو مچا سکیں گی لیکن وہ اس قسم کی مرکوز مشکلات اس حکومت کے لیے نہیں پیدا کر سکیں گی جیسا کہ پی ٹی آئی نے نواز شریف کی سابقہ حکومت کے لیے کھڑی کی تھیں۔
اور سیاسی تجزیہ کار اور ڈیلی ٹائمز کے سابق ایڈیٹر اور ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پبلی کیشن سنٹر لاہور کے راشد رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام اہم عہدے حکومت کے ہاتھ میں آنے کے بعد ایک بٹی ہوئی حزب اختلاف مستقبل میں ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر حکومت کے خلاف صحیح طریقے سے کوئی متحدہ اپوزیشن کر سکے گی یا نہیں، اس بارے میں ایک سوال تو کھڑا ہو گیا ہے لیکن ابھی تک آثار اچھے نظر نہیں آ رہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ عارف علوی کی کامیابی کے بعد اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت کو مستقبل قریب میں حکومت چلانے میں کوئی زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں دکھائی دے رہا لیکن اس کے لیے ایک سب سے بڑا چیلنج وہ اونچی امیدیں اور توقعات ہیں جو اس نے عوام کے ذہنوں اور دلوں میں پیدا کر دی ہیں جنہیں ملک کے موجودہ زمینی حالات کے تحت پورا کرنا بہت مشکل ہو گا ۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت ان امیدوں کو زیادہ عرصے تک پورا نہ کر سکی تو پھر اس کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔