رسائی کے لنکس

فرانس کے نو منتخب صدر کا سیاسی پس منظر


انتخابی مہم میں مسٹر اولان کے اس نعرے پر کہ مالیات کی دنیا میری دشمن ہے لندن سمیت بعض یورپی ملکوں کے دارالحکومتوں تشویش اور ناگواری کا اظہار کیا گیا۔ پیرس میں سینٹر فار پولٹیکل ریسرچ کے برونو کیٹرس کہتے ہیں کہ مسٹر اولان برطانیہ کے دارالحکومت لندن گئے اور وہاں انھوں نے اعلان کیا کہ میں کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔

سوشلسٹ لیڈر فرانسواں اولان نے موجودہ صدر نکولس سارکوزی کا شکست دے کر فرانس کے صدر کا انتخاب جیت لیا ہے۔

اگرچہ57 سالہ سوشلسٹ لیڈر فرانسواں اولان کا شمار فرانس کے ممتاز ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ قومی حکومت میں کسی عہدے پر فائز نہیں رہے ہیں۔

پیرس میں فرنچ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے سینیئر اڈوائزر ڈومینیک میوسئی کہتے ہیں کہ مسٹر اولان تیس برس سے زیادہ عرصے سے فرانس کی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔

’’انھوں نے نیشنل اسکول آف ایڈمنسٹریشن (ای این اے) میں تعلیم حاصل کی جو اعلیٰ طبقے کا اسکول ہے۔ اس کے بعد انھوں نے ایلیسی پیلس میں کابینہ کے جونیئر وزیر کی حیثیت سے صدر فرانسیوس کی ماتحتی میں کام کیا ۔ پھر وہ گیارہ برس تک سوشلسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل رہے اور پھر انھوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔ ڈومینک اسٹارس کان کی شخصیت کے گرد جو ڈرامہ ہوا، اس سے انہیں فائدہ ہوا اور پھر سوشلسٹ پارٹی کے پرائمری انتخاب میں، انہوں نے اپنے حریف مارٹین ایوبری کو شکست دے دی، اور یوں ان کی صدارت کی راہ ہموار ہو گئی۔‘‘

مسٹر اولان کی اقتصادی پالیسیوں میں بہت زیادہ مالدار لوگوں پر ٹیکسوں میں اضافہ، ایندھن کی قیمتوں کو منجمد کرنا اور ویلفیئر کی ادائیگی کی رقم کو بڑھانا اور 60,000 نئے ٹیچرز کو ملازمتیں دینا شامل ہے۔

انتخابی مہم میں مسٹر اولان کے اس نعرے پر کہ مالیات کی دنیا میری دشمن ہے لندن سمیت بعض یورپی ملکوں کے دارالحکومتوں میں تشویش اور ناگواری کا اظہار کیا گیا۔

پیرس میں سینٹر فار پولٹیکل ریسرچ کے برونو کیٹرس کہتے ہیں کہ مسٹر اولان برطانیہ کے دارالحکومت لندن گئے اور وہاں انھوں نے اعلان کیا کہ میں کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔
’’وہ در اصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ آپ مجھے کوئی مارکسٹ نہ سمجھیں، نہ میں کوئی خفیہ کمیونسٹ ہوں، نہ میں کوئی ایسا شخص ہوں جو صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لے گا۔ لہٰذا، جب انھوں نے یہ باتیں کہیں، تو وہ بین الاقوامی مالیاتی حلقوں اور منڈیوں کو یہ اطمینان دلا رہے تھے کہ آپ سوشلسٹ ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی آ پ حقیقت پسند اور عملی انسان ہو سکتے ہیں، اور یہ کہ فرانس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘‘

واشنگٹن میں کونسل آن فارن ریلیشنز کے چارلس کپیوچان کہتے ہیں کہ مسٹر اولان کی ایک اور پالیسی متنازع ہے۔ ’’انھوں نے مالی سمجھوتے پر دوبارہ مذاکرات کے لیے کہا ہے۔ یہ وہ سمجھوتہ ہے جو یورپی یونین نے جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی قیادت کے زمانے میں کیا تھا۔ اور اولان کے اس مطالبے سے کہ اس پیکٹ پر نظرِ ثانی کی جائے اور اخراجات کم کرنے کے بجائے اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی لانے پر زیادہ توجہ دی جائے، یقیناً فرانس میں اور یورپ کے بعض ملکوں میں کچھ حمایت حاصل ہو جائے گی، خاص طور سے اٹلی، اسپین، یونان، پرتگال میں، لیکن اس سے جرمنی کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔‘‘

مسٹر چارلس کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں مسٹر اولان اور سابق صدر کے درمیان اور بھی کچھ اختلا فات ہیں۔ ’’دو معاملات جو انھوں نے اٹھائے ہیں اور جن سے واشنگٹن میں کچھ تشویش پیدا ہوئی ہے، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ وہ افغانستان سے فوجوں کی واپسی میں تیزی لانا چاہتے ہیں۔ اولان نے کہا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ فرانسیسی فوجیں 2012 میں واپس آ جائیں۔ سارکوزی نے نے 2013 کی تاریخ دی ہے۔ نیٹو اور واشنگٹن 2014 کی بات کر رہے ہیں۔ اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سارکوزی نے کئی برس پہلے جو فیصلہ کیا تھا کہ فرانس کو نیٹو کے فوجی ڈھانچے میں واپس لایا جائے، اس کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے۔‘‘

چارلس کہتے ہیں کہ مسٹر اولان، مسٹر سارکوزی کی نیٹو کی پالیسی کو مکمل طور سے ختم تو نہیں کریں گے لیکن وہ اس پر نئے سرے سے غور ضرور کریں گے۔

’’اور اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ فرانس کی خارجہ پالیسی ایک بار پھر ویسی ہی ہو جائے جس میں بحرِ اوقیانوس کے آر پار کے ملکوں کو اتنا دخل نہ ہو جتنا سارکوزی کے دور میں رہا ہے ۔ اور میں یہ کہوں گا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد، فرانس میں سار کوزی سب سے زیادہ امریکہ کی حمایت کرنے والے صدر تھے۔‘‘

ڈومینیک اسی بات کو اس طرح کہتے ہیں کہ ’’وہ امریکہ کے اتنے زیادہ حامی نظر نہیں آئیں گے جتنے نکولس سارکوزی تھے۔ نکولس سارکوزی کے مقابلے میں وہ اسرائیل کی کم طرفداری کریں گے۔ لیکن پالیسی میں ردو بدل کی گنجائش اتنی کم ہے کہ میرے خیال میں اولان کی خارجہ پالیسی اور نکولس سارکوزی کی خارجہ پالیسی کے درمیان کوئی بڑا فرق نہیں ہوگا۔‘‘

ڈومینیک کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ واشنگٹن اور پیرس کے درمیان تعلقات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔

XS
SM
MD
LG