رسائی کے لنکس

یورپ میں مسیحی قیادت کو درپیش نیا مسئلہ


یورپ میں مسیحی قیادت کو درپیش نیا مسئلہ
یورپ میں مسیحی قیادت کو درپیش نیا مسئلہ

یورپ میں مسیحی قیادت کو آج کل جو نیا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ پروٹیسٹینٹ اور کیتھولک دونوں فرقوں کے لوگ خود کو عیسائیت سے الگ کرنا چاہتے ہیں یعنی وہ اپنے نام چرچ کے اس رجسٹر سے حذف کرانا چاہتے ہیں جس میں بپتسمہ دیتے وقت ان کا نام لکھا گیا تھا۔

اس رجحان سے یورپ میں جو روایتی طور پر عیسائیت کا پیرو رہا ہے سیکولر ازم کی بڑھتی ہوئی لہر کی عکاسی ہوتی ہے۔

چھٹی صدی عیسوی کے سینٹ گریمین دیس پرس کے قدیم چرچ میں فادر بینواسٹ دی سینیٹی تین سال سے اس چرچ کے پادری ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں ہمیشہ ایسے چرچ ملے جہاں بڑی تعداد میں لوگ عبادت کے لیے آتے تھے۔’’ یہاں بہت سے نوجوان اپنا ایمان تازہ کرنے آتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر جگہ ایسا نہیں ہے‘‘۔

فرانس میں اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں چرچ جانے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اس رجحان کا اظہار نہ صرف خالی نشستوں سے ہوتا ہے بلکہ بپتسمہ میں نمایاں کمی سے بھی۔ بپتسمہ عیسائی مذہب میں داخل کرنے اور عموماً عیسائی نام رکھنے کی رسم کو کہتے ہیں۔

لیکن تازہ ترین رجحان اس کے برعکس ہے، یعنی یہ مطالبہ کرنا کہ چرچ اپنے بپتسمے کے رجسٹر سے نام نکال دیں ۔ نام حذف کرنے کا کام پروٹیسٹینٹ اور کیتھولک دونوں فرقوں کے پیروکار کر رہے ہیں۔

اگرچہ کوئی سرکاری اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہیں، لیکن ماہرین اور سرگرم کارکنوں کا اندازہ ہے کہ بپتسمے سے الگ ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ ایسی بہت سی ویب سائٹس بھی بن گئی ہیں جو غیر رسمی طور پر ڈی بپتسمہ کے سرٹیفیکٹ پیش کرتی ہیں۔

برسلز کی فری یونیورسٹی میں مذہب اور سیکولرازم کے مطالعے کے سینٹر کی سربراہ این مورلی کہتی ہیں’’ پورے یورپ میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر بپتسمے سے الگ ہونے کا سلسلہ جاری ہے ۔ 2011 میں ، خاص طور سے ، نیدرلینڈز، جرمنی، بیلجیم اور آسٹریا میں اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔‘‘

مورلی کہتی ہیں کہ اس رجحان سے چرچوں میں بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کے اسکینڈلوں کے خلاف لوگوں کی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے ۔ برطانیہ میں نیشنل سیکولر سوسائٹی کے سربراہ ٹیر سینڈرسن اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں لوگوں میں چرچ چھوڑنے کی تحریک ، خاص طور سے کیتھولک چرچ سے علیحدہ ہونے کی وجہ بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتوں کے اسکینڈل ہیں جن سے بہت سے لوگ ناراض ہو گئے اور بڑی تعداد میں چرچ سے علیحدہ ہونا شروع ہو گئے۔‘‘

ایک عشرہ پہلے سینڈرسن کی سوسائٹی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک غیر سرکاری سرٹیفکٹ لگا دیا جسے لوگ ڈاؤن لوڈ کر سکتے تھے ۔ آج تک 100,000 لوگ ایسا کر چکے ہیں۔ سینڈرسن کہتے ہیں’’شروع میں تو یہ محض مذاق تھا لیکن اب تو اتنے لوگ چرچ کو چھوڑنا چاہتےہیں اور باقاعدہ طور پر چرچ سے اپنا تعلق ختم کرنا چاہتے ہیں۔اکثر تو چرچ ان کی علیحدہ ہونے کی خواہش کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔‘‘

کچھ کیتھولکس اسقاطِ حمل، ہم جنس پرستی اور شادی شدہ پادریوں کے بارے میں پوپ بینیڈکٹ کے قدامت پسند خیالات کے مخالف ہیں۔ بعض مسیحیوں نے اپنے چرچوں سے اس طرح قطع تعلق کیا ہے کہ انھوں نے چرچ کے سرکاری ٹیکس ادا کرنے بند کر دیے ہیں۔ جرمنی میں ایسا ہی ہوا ہے۔ وہاں 2011 میں 181,000 کیتھولکس چرچ سے باقاعدہ طور پر الگ ہوگئے ۔

فرانس میں 71 سالہ رین لیبووئر نے ایک عشرہ پہلے طے کیا کہ چرچ سے علیحدہ ہونے کا وقت آ پہنچا ہے ۔ انھوں نے نے درخواست کی کہ ان کا نام ان کے چرچ کے بپتسمے کی رجسٹری سے نکال دیا جائے۔ حال ہی میں انھوں نے قانونی طور پر اپنا نام نکالنے کے لیے مقدمہ دائر کر دیا۔ اکتوبر میں، نورمینڈے کی ایک عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا، ایک مقامی بشپ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کردی ہے ۔

پیرس میں نیشنل سنٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کے مذہب کے پروفیسر فلپ پورٹیئر کہتے ہیں کہ فرانس میں بہت کم لوگ بپتسمے کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں، لیکن لیبووئر کا کیس قانونی نظیر بن سکتا ہے ۔’’ یورپ میں، اور خاص طور سے فرانس میں ، یہ پہلی بار ہوگا کہ چرچ کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے رجسٹروں سے ایسے لوگوں کے نام نکال دے جو یہ نہیں چاہتے کہ انہیں چرچ جانے والوں میں شمار کیا جائے۔‘‘

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ فرانس میں مذہبی قیادت کی اصل پریشانی یہ ہے کہ بپتسمہ لینے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے ۔ چرچ کے اعداد و شمار کے مطابق، آج کل تین فرانسیسی بچوں میں سے صرف ایک کو چرچ میں بپتسمہ دیا جاتا ہے۔ نصف صدی پہلے یہ تعداد 90 فیصد تھی ۔

فادر بنواسٹ کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ آج کل مسیحیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے، لیکن جو لوگ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہیں وہ اپنے مشن پر زیادہ سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ وہ بنی نوع انسان کی خدمت اور خدا سے محبت پر یقین رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG