رسائی کے لنکس

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی پر 'را' کے ساتھ رابطوں کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی وزارتِ دفاع نے ملک کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی پر بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے ساتھ رابطوں کا الزام عائد کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسد درانی کی طرف سے اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکلوانے کے لیے دائر پٹیشن پر وزارتِ دفاع نے اپنا تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔

وزارتِ دفاع نے اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے ساتھ رابطوں میں رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کو وزارتِ داخلہ کے دستیاب اس تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ اسد درانی کا نام ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے۔

تحریری جواب کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی 32 برس تک پاکستان آرمی میں خدمات انجام دیتے رہے اور اس دوران وہ کئی اہم اور حساس عہدوں پر تعینات رہے۔ لیکن اسد درانی 2008 سے دشمن عناصر بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی را سے رابطوں میں رہے۔

وزارتِ دفاع کے مطابق اسد درانی کے خلاف انکوائری حتمی مرحلے میں ہے اور اس مرحلے پر اُن کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا۔

وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اسد درانی نے 12 اور 13 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر جس رائے کا اظہار کیا اسے بھی کسی محب وطن شہری نے اچھا نہیں سمجھا۔

وزارتِ دفاع نے اپنے جواب میں کہا کہ اسد درانی نے 'را' کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھی۔ کتاب کا سکیورٹی لحاظ سے جائزہ لیا گیا اور انکوائری بورڈ کے مطابق کتاب کا مواد پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔

وزارتِ دفاع کے مطابق اسد درانی بیرونِ ملک کانفرنسز اور ٹاک شوز میں شرکت کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب 'آنر امنگ اسپائیز' کے بعد ان کا جانا قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔

اسد درانی کی کتاب میں کیا ہے؟

اسد درانی نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک کتاب لکھی جو سال 2018 میں شائع ہوئی۔

'اسپائی کرونیکلز را- آئی ایس آئی اینڈ دی الیوژن آف پیس' نامی اس کتاب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مختلف تنازعات سمیت ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے آپریشن، مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل جنگ سمیت کئی اہم موضوعات شامل ہیں۔

اس کتاب کے بارے میں اسد درانی کا کہنا تھا کہ بھارت میں ایک دورے کے دوران ان کی ملاقات ایس کے دولت سے ہوئی جنہوں نے کتاب لکھنے کے حوالے سے بات کی اور بعد میں ایک صحافی کی مدد سے اس بارے میں یہ کتاب لکھی گئی اور سال 2018 میں اسے شائع کیا گیا۔

اس کتاب میں پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر تنقید کی گئی اور جنرل درانی نے کارگل جنگ کو جنرل مشرف کا جنون کہا۔

اس کے علاوہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے لیے ایبٹ آباد میں ہونے والے آپریشن کے حوالے سے جنرل درانی نے اس شک کا اظہار کیا کہ پاکستان کو اس حوالے سے پہلے سے علم تھا اور پاکستان نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے آئی ایس آئی کے ایک سابق افسر پر بھی امریکہ کو معلومات فراہم کرنے کا شک ظاہر کیا لیکن اس کا نام لینے سے گریز کیا۔

فوج کی طرف سے اسد درانی کی طلبی

پچیس مئی 2018 کو اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے ایک دن بعد ہی پاکستان فوج کے اُس وقت کے ترجمان آصف غفور کی طرف سے ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ اسد درانی کو کتاب کے حوالے سے پوزیشن واضح کرنے کے لیے 28 مئی کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) طلب کیا گیا ہے۔

جنرل غفور کا کہنا تھا کہ اسد درانی کو ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر پوزیشن واضح کرنا ہو گی، جس کا اطلاق تمام حاضر اور ریٹائرڈ اہلکاروں پر ہوتا ہے۔

اس کے بعد جنرل اسد درانی جی ایچ کیو پہنچے اور اس حوالے سے اپنا مؤقف انکوائری بورڈ کے سامنے پیش کیا۔ لیکن پاکستان فوج نے ان کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور 28 مئی کو ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ اسد درانی کے خلاف حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں تحقیقات کی جائیں گی۔

پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق مجاز اتھارٹی نے اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے لیے رابطہ کیا اور اگلے ہی روز اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرلیا گیا۔

اسد درانی کی مراعات اور پینشن بند، رینک برقرار

تئیس فروری 2019 کو اس بات کا اعلان کیا گیا کہ جنرل اسد درانی کی پنشن اور مراعات بند کر دی گئی ہیں۔

اُس وقت کے فوجی ترجمان آصف غفور نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ اسد درانی تحقیقات میں فوجی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے، وہ ایک سینئر افسر تھے اور جس طریقے سے انہوں نے کتاب لکھی اس میں طریقۂ کار پر عمل نہیں کیا گیا، جس پر ان کے خلاف ہونی والی تحقیقات کے بعد ان کی پنشن اور مراعات کو روک دیا گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جنرل اسد درانی کا رینک برقرار رہے گا تاہم اُن کا نام ای سی ایل میں ہے اور اس فہرست میں ان کا نام برقرار رکھنے کے لیے وزارتِ داخلہ سے بات کی جائے گی۔

اسد درانی کا ہائی کورٹ سے رجوع

اسد درانی نے گزشتہ برس دو اکتوبر کو اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں اور پیشہ ورانہ ملاقاتوں کے سلسلے میں ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔

دائر کردہ درخواست کے مطابق اسد درانی کا نام بغیر کسی نوٹس کے ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے اور ای سی ایل آرڈر میں ان کے خلاف جاری انکوائری کا ذکر کیا گیا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ اسد درانی نے پانچ ستمبر کو پاک آرمی کے ایڈجوٹینٹ جنرل کو ان کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کی درخواست کی تھی، کیوں کہ وہ پیشہ ورانہ ملاقاتوں کے سلسلے میں باہر جانا چاہتے ہیں اور ان کی اہلیہ ملک سے باہر موجود اپنے پوتے اور پوتیوں سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں۔

وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسد درانی 25 سال قبل فوج سے ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان پر آرمی ایکٹ 1952 لاگو نہیں ہوتا، اس لیے ان کے خلاف شروع کی گئی انکوائری غیر قانونی ہے۔

اس معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ وزارتِ داخلہ کو بھجوایا لیکن وزارتِ داخلہ نے ای سی ایل سے نام نکالنے سے انکار کر دیا۔

بعدازاں اسد درانی نے دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں وزارتِ دفاع نے ان کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے انکوائری کے جلد مکمل ہونے اور ان کا نام ای سی ایل میں شامل رکھنے کا مؤقف اختیار کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG