اسلام آباد کی مشہور لال مسجد سے منسلک جامعہ حفصہ میں طالبان کے جھنڈے لگانے پر انتظامیہ نے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ مسجد کے ترجمان کے مطابق خطیب لال مسجد و مہتمم جامعہ حفصہ مولانا عبدالعزیز غازی نے کل لال مسجد میں نفاذِ شریعت و فتح مبین کانفرنس کے انعقاد کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
ماضی میں اسلام آباد کی اس مسجد میں مبینہ طور پر دہشت گردوں کی موجودگی پر پاکستان فوج کے آپریشن میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ ایسے جھنڈے لگانے کی کسی طور اجازت نہیں ہے اور ان جھنڈوں کو ہٹا کر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
اسلام آباد کی لال مسجد کے ترجمان حافظ احتشام نے اس بارے میں تصاویر اور ایک بیان میڈیا سے شئیر کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون تھری فور میں قائم جامعہ سیدہ حفصہ میں امارات اسلامیہ افغانستان کے جھنڈے لہرا دیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جامعہ حفصہ کے مہتمم اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے جمعہ کو لال مسجد میں نفاذِ شریعت و فتح مبین کانفرنس کے انعقاد کا اعلان بھی کیا ہے۔
طالبان کے جھنڈوں پر انتظامیہ کا مؤقف
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات سے اس بارے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ہمیں اطلاعات موصول ہوئی تھیں اور اسلام آباد پولیس و ضلعی انتظامیہ کی ٹیمیں موقع پر بھجوا دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے جھنڈے لگانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی لہذا یہ جھنڈے اتارے جائیں گے اور انہیں لگانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی موجودہ صورتِ حال کیا ہے؟
اسلام آباد کی لال مسجد سیکٹر جی سکس میں آبپارہ مارکیٹ کے قریب ہے اور گزشتہ ایک برس سے زائد عرصہ سے اس مسجد سے منسلک سڑک کو خاردار تاریں اور سیمنٹ کے بلاکس رکھ کر بند کر دیا گیا ہے۔
اس مسجد میں پانچ وقت نماز ادا کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی اجتماع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو کچھ عرصہ قبل اس مسجد میں خطیب کے عہدہ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب بھی وہ اس مسجد میں اکثر نمازِ جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے آ جاتے ہیں اور حکومت انہیں روکنے کی کوشش کرتی ہے۔
جامعہ حفصہ لال مسجد آپریشن سے پہلے مسجد کے ساتھ ہی منسلک تھا اور حکام کے مطابق سرکاری زمین پر بغیر اجازت اس کی تعمیر کی گئی تھی جس کے باعث اسے منہدم کر دیا گیا تھا۔ بعد میں مدرسہ میں مقیم خواتین کے لیے عارضی طور پر سیکٹر جی سیون تھری فور میں ایک مسجد سے منسلک خالی زمین پر انتظام کیا گیا لیکن اب وہاں غیر قانونی طور پر کئی منزلہ عمارت بن چکی ہے۔ اس وقت بھی جامعہ حفصہ میں سیکڑوں طالبات مقیم ہیں۔
جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی طرف جانے والے راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات رہتی ہے۔ جامعہ حفصہ جس جگہ قائم کیا گیا ہے وہاں سرکاری ملازمین کے کوارٹرز بنے ہوئے ہیں۔ ان گھروں کو جانے والی گلیوں میں پولیس کے جوان 24 گھنٹے ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں۔ کسی کو آنے جانے سے روکا نہیں جاتا لیکن اگر کسی مقام پر جلوس جانے کا خدشہ ہو تو خاردار تاریں لگا کر راستوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔
لال مسجد تنازع
سال 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد کا معاملہ سامنے آیا جب اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں قائم مساجد کو منہدم کرنے کے معاملہ پر لال مسجد انتظامیہ اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان تنازع ہو گیا۔
چند دنوں میں اس تنازع نے عالمی سطح کے تنازع کی شکل اختیار کر لی جس میں اس وقت کی فوجی حکومت کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے مسجد انتظامیہ کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دی۔
مبصرین کے مطابق اگرچہ اس وقت حکومت میں شامل سیاست دانوں نے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی لیکن تنازع شدت اختیار کرنے کے باعث فوجی آپریشن ہوا جس میں مولانا عبدالرشید غازی سمیت مبینہ طور پر درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ اس آپریشن کے دوران بعض فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ آپریشن کے دوران مولانا عبدالعزیز کو مسجد سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔