پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواتین کے ایک مدرسے جامعہ حفصہ میں ایک کمرے کی لائبریری کو اسامہ بن لادن کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
جامعہ حفصہ ایک بار پھر اُس وقت مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بن گئی جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ اس کی ایک کمرے کی لائبیری کو اسامہ بن لادن کے نام سے منسوب کیا گیا۔
اس مدرسے کے روح رواں لال مسجد کے سابق خطیب عبد العزیز ہیں۔ اُن کے ایک ترجمان نے امریکی خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹیڈ‘ کو بتایا کہ وہ بن لادن کو ایک ہیرو سمجھتے ہیں اس لیے انھوں نے اس لائبریری کو ان کے نام سے منسوب کیا۔
القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کو مئی 2011ء میں ایبٹ آباد شہر میں امریکی اسپیشل فورسز نے خفیہ کارروائی کرکے ہلاک کر دیا تھا۔
لال مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ جامعہ حفصہ 2007ء میں اس وقت دنیا کی نظروں میں آئے جب اس کے طلبا نے اسلام آباد میں چند چینی شہریوں اور پولیس کے اہلکاروں کو یرغمال بنایا۔
بعد ازاں یہاں غیر ملکی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے شبے میں اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف نے فوجی آپریشن کا حکم دیا۔ اس کارروائی میں ایک سو سے زائد افراد مارے گئے جن میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔
اس مسجد کے پیش امام عبدالعزیز فوجی آپریشن کے دوران گرفتار ہوئے تاہم بعد میں اُنھیں رہا کر دیا گیا۔
لال مسجد کی حالیہ برسوں میں بحالی اور تزئین و آرائش کی گئی جب کہ جس جگہ جامعہ حفصہ مدرسہ ہوا کرتا تھا وہاں صرف اب ایک کھلا میدان ہے۔
جامعہ حفصہ اب وفاقی دارالحکومت میں لال مسجد کے ساتھ نہیں بلکہ ایک دوسرے مقام پر قائم ہے۔
عبدالعزیز ایک سخت گیر مذہبی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔ انھیں طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنے رابطہ کاروں میں بھی شامل کیا تھا لیکن وہ جلد ہی بعض امور پر اختلافی نقطہ نظر کی وجہ سے اس کمیٹی سے علیحدہ ہو گئے۔
جامعہ حفصہ ایک بار پھر اُس وقت مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بن گئی جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ اس کی ایک کمرے کی لائبیری کو اسامہ بن لادن کے نام سے منسوب کیا گیا۔
اس مدرسے کے روح رواں لال مسجد کے سابق خطیب عبد العزیز ہیں۔ اُن کے ایک ترجمان نے امریکی خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹیڈ‘ کو بتایا کہ وہ بن لادن کو ایک ہیرو سمجھتے ہیں اس لیے انھوں نے اس لائبریری کو ان کے نام سے منسوب کیا۔
القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کو مئی 2011ء میں ایبٹ آباد شہر میں امریکی اسپیشل فورسز نے خفیہ کارروائی کرکے ہلاک کر دیا تھا۔
لال مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ جامعہ حفصہ 2007ء میں اس وقت دنیا کی نظروں میں آئے جب اس کے طلبا نے اسلام آباد میں چند چینی شہریوں اور پولیس کے اہلکاروں کو یرغمال بنایا۔
بعد ازاں یہاں غیر ملکی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے شبے میں اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف نے فوجی آپریشن کا حکم دیا۔ اس کارروائی میں ایک سو سے زائد افراد مارے گئے جن میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔
اس مسجد کے پیش امام عبدالعزیز فوجی آپریشن کے دوران گرفتار ہوئے تاہم بعد میں اُنھیں رہا کر دیا گیا۔
لال مسجد کی حالیہ برسوں میں بحالی اور تزئین و آرائش کی گئی جب کہ جس جگہ جامعہ حفصہ مدرسہ ہوا کرتا تھا وہاں صرف اب ایک کھلا میدان ہے۔
جامعہ حفصہ اب وفاقی دارالحکومت میں لال مسجد کے ساتھ نہیں بلکہ ایک دوسرے مقام پر قائم ہے۔
عبدالعزیز ایک سخت گیر مذہبی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔ انھیں طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنے رابطہ کاروں میں بھی شامل کیا تھا لیکن وہ جلد ہی بعض امور پر اختلافی نقطہ نظر کی وجہ سے اس کمیٹی سے علیحدہ ہو گئے۔