پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ نے 'لال مسجد' کا گھیراؤ کر رکھا ہے۔ جہاں اطلاعات کے مطابق مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز اور جامعہ حفصہ کی درجنوں طالبات موجود ہیں۔
مولانا عبدالعزیز نے اُنہیں دوبارہ لال مسجد کا خطیب مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے جمعہ سے مسجد کے باہر علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ کسی کو بھی مسجد کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
اس کے بعد حکام مذاکرات کے لیے مولانا عبدالعزیز کے پاس لال مسجد پہنچے لیکن مولانا عبدالعزیز نے اصرار کیا کہ وفاقی وزیر کے منصب پر فائز کے علاوہ وہ کسی سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
اس حوالے سے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔
لال مسجد شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام احمد کہتے ہیں کہ انتظامیہ ایک مرتبہ پھر وہی غلطی دہرانے پر کمر بستہ ہے۔ جو اس نے 2007 میں کی تھی۔
اسلام آباد کے سینئر صحافی قلب علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مولانا عبدالعزیز اور حکومت کے درمیان جامعہ حفصہ کے لیے اراضی کا تنازع چلا آ رہا ہے۔ مولانا عبدالعزیز دوبارہ لال مسجد کے خطیب بھی بننا چاہتے ہیں۔
قلب علی کے مطابق لال مسجد آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے مولانا عبدالعزیز کے بھائی غازی عبدالرشید کے بیٹے ہارون رشید نے چند روز قبل مسجد کے قریب خطیب کی سرکاری رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا تھا ۔ جس کے بعد اب مسجد میں دو گروپ بن گئے ہیں۔ ایک گروپ کو ہارون رشید اور مولانا عبدالعزیز جب کہ دُوسرے گروپ کی حمایت حافظ احتشام کر رہے ہیں۔
قلب علی کا کہنا تھا کہ جب انتظامیہ نے ہارون رشید کو گھر خالی کرنے کا کہا تو اُنہوں نے اپنے چچا مولانا عبدالعزیز سے مدد مانگی۔ جو جامعہ حفصہ کی طالبات کے ہمراہ یہاں پہنچ گئے۔
لال مسجد اُس وقت شہ سرخیوں میں رہی تھی، جب 2007 میں یہاں فوجی آپریشن کیا گیا تھا۔ جس میں مولانا عبدالعزیز کے بھائی عبدالرشید غازی ہلاک ہو گئے تھے۔ البتہ مولانا عبدالعزیز کو اس سے قبل برقعہ پہن کر مسجد سے فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ واقعے میں درجنوں طالبات کی ہلاکت کے دعوے بھی کیے گئے تھے لیکن انتظامیہ نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔
یہ آپریشن حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے پر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل لال مسجد کے گردونواح میں میوزک سنٹرز، چینی مساج سینٹرز اور قحبہ خانوں کے خلاف کارروائیوں کے واقعات سامنے آئے تھے۔
تنازع ہے کیا؟
اسلام آباد انتظامیہ نے 26 جون 2019 کو لال مسجد کے خطیب عامر صدیق کو عہدے سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد اج تک یہ عہدہ خالی ہے۔ عامر صدیق، مولانا عبدالرشید کے بھانجے ہیں۔
پاکستانی اخبار 'ڈان' کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مقرر کیے جانے والے خطیب کو بھی مولانا عبدالعزیز کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کیوں کہ وہ خود خطیب بننا چاہتے ہیں۔
مولانا عبدالعزیز 1998 سے 2004 تک خطیب رہے، انہیں لال مسجد کے آپریشن کے دوران 2007 میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جس کے بعد مولانا عبدالغفار کو خطیب اور عامر صدیق کو عارضی بنیادوں پر نائب خطیب تعینات کیا گیا تھا۔
مولانا غفار نے 2009 میں مولانا عبدالعزیز کی رہائی کے بعد مسجد چھوڑ دی تھی۔
اطلاعات کے مطابق چھ فروری کو مولانا عبدالعزیز نے پابندی کے باوجود مسجد کا رُخ کیا اور سات فروری کو یہاں جمعے کا خطبہ بھی دیا۔ جس میں مبینہ طور پر اُنہوں نے اسلامی قوانین کے نفاذ، سود کے خاتمے اور جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے اراضی سمیت دیگر مطالبات کیے تھے۔
اسلام آباد انتظامیہ نے چھ فروری سے لال مسجد اور گردو نواح کے علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے اور کسی کو باہر سے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی، تاہم، مسجد کے اندر سے کوئی بھی باہر آ سکتا ہے۔
اس فوجی آپریشن کے بعد حکومت اور مسجد کی انتظامیہ ایک معاہدے پر پہنچے تھے جس کے تحت جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے متبادل جگہ فراہم کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) نے سیکٹر ایچ الیون میں مدرسے کو 20 کینال جگہ دینے کی نشاندہی کی تھی۔
شہدا فاؤنڈیشن کیا کہتی ہے؟
شہدا فاؤنڈیشن کے حافظ احتشام نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اصل معاملہ ایچ الیون کے پلاٹ کا ہے۔ لال مسجد آپریشن کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ لال مسجد سے ملحقہ زمین پر جامعہ حفصہ تعمیر کیا جائے، اس وقت انتظامیہ نے اس معاملہ میں مولانا عبدالعزیز سے بات کی اور ایچ الیون میں انہیں متبادل 20 کنال کا پلاٹ دیا۔
گزشتہ سال سپریم کورٹ میں موجودہ چیف جسٹس جسٹس گلزار نے لال مسجد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران حکم دیا کہ ایک پرائیویٹ شخص کو 20 کنال زمین کیسے دی جاسکتی ہے؟ جس پر اسلام آباد انتظامیہ نے اس پلاٹ کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی تھی۔
اس کے بعد مبینہ طور پر مولانا عبدالعزیز نے اپنے بھتیجے ہارون رشید کو بھیجا اور لال مسجد کے سرکاری مکان پر قبضہ کرا دیا۔ جامعہ حفصہ کی دو سو کے لگ بھگ بچیاں بھی لال مسجد پہنچ گئیں اور اُنہوں نے یہاں رہنا شروع کر دیا۔ دریں اثنا لال مسجد کے قریب مدرسے کی تعمیر بھی شروع کر دی گئی اور ان خواتین نے ایچ الیون والے پلاٹ پر بھی قبضہ کر لیا۔
حافظ احتشام کہتے ہیں کہ جب سپریم کورٹ نے لال مسجد کے قریب مدرسے کی جگہ دینے کا حکم دیا تو مولانا عبدالعزیز نے لالچ کرتے ہوئے ایچ الیون میں 20 کنال کا پلاٹ لے لیا۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ پلاٹ منسوخی کے بعد مولانا عبدالعزیز نے دو ارب روپے کا مطالبہ کیا۔ تاہم حکومت نے سرکاری زمین کے بدلے رقم دینے سے انکار کر دیا۔
حافظ احتشام نے کہا کہ وہ اس معاملہ پر مولانا عبدالعزیز کے خلاف ہیں اور ان کے بھتیجے کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں ایک ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی ہے۔