رسائی کے لنکس

ملک میں شرعی قانون نافذ کرنے کی درخواست مسترد


درخواست لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے دائر کی تھی (فائل فوٹو)
درخواست لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے دائر کی تھی (فائل فوٹو)

درخواست مولانا عبدالعزیز کی طرف سے ان کے وکیل طارق اسد نے دائر کی تھی جنہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ ایک جامع درخواست تھی لیکن عدالتِ عظمیٰ نے اسے مسترد کر دیا۔

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ملک میں شریعت نافذ کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

اسلام آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی طرف سے دائر کی جانے والی اس درخواست کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراضات لگا کر فروری 2016ء میں خارج کر دیا تھا۔

لیکن درخواست گزار کی اپیل پر اس کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق پیر کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں معاملے کی سماعت کی جس کے دوران چیف جسٹس نے رجسٹرار کے اعتراضات کو برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔

درخواست مولانا عبدالعزیز کی طرف سے ان کے وکیل طارق اسد نے دائر کی تھی جنہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ ایک جامع درخواست تھی لیکن عدالتِ عظمیٰ نے اسے مسترد کر دیا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ملک میں موجود تمام برائیوں اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز، دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام سے بچنے اور سماجی ہم آہنگی، قومی معیشت جیسے معاملات کو بہتر کرنے کا واحد راستہ شریعت کا نفاذ ہے۔

درخواست گزار نے صدر، حکومت، چاروں صوبوں کے گورنروں، وزارتِ قانون و انصاف کے سیکرٹری، اسپیکر قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کو فریق بناتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ ان تمام کو نفاذِ شریعت کے لیے آئین میں ضروری ترامیم کرنے کا حکم دیا جائے۔

حکومتوں کا مؤقف رہا ہے کہ ملک کا آئین اسلامی تعلیمات کے مطابق تیار کیا گیا ہے اور پاکستان میں کوئی بھی قانونی سازی قرآن اور سنت کے منافی نہیں کی جاسکتی۔

لیکن اس کے باوجود اکثر و بیشتر مختلف مذہبی حلقوں کی طرف سے شریعت کے نفاذ کے مطالبے سامنے آتے رہے ہیں۔

رواں سال کے اوائل میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک بااثر مذہبی شخصیت پیر حمید الدین سیالوی نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایک ہفتے میں ملک میں شریعت نافذ کی جائے بصورت دیگر ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا۔

تاہم حکومتی نمائندوں کے ان سے مذاکرات اور مشاورت کے بعد یہ احتجاج موخر کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG