رسائی کے لنکس

لال مسجد سے وابستہ 'انتہا پسندوں' کے خلاف کارروائی کی تحریک مسترد


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمن نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ فرضی ہے اور معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔"

پاکستان کے ایوان بالا "سینیٹ" میں اسلام آباد کی لال مسجد سے مبینہ طور پر منسلک انتہا پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی مجوزہ کارروائی سے متعلق پیش کی گئی تحریک التوا مسترد کر دی گئی ہے۔

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق تحریک التوا حزب مخالف کے سینیٹر طاہر مشہدی نے پیش کی تھی جس میں اس مسجد و مدرسے سے مبینہ طور پر منسلک انتہا پسند عناصر کے خلاف کارروائیوں کی خبروں کو حوالہ دیا گیا تھا۔

تاہم وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمن نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ فرضی ہے اور معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔"

تاہم جب قائم مقام چیئرمین سینیٹ احمد حسن نے تحریک کو مسترد کیا تو طاہر مشہدی نے برانگیختہ ہو کر وزیر مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "مولانا عزیز کو مت بچائیں۔"

اسلام آباد کے قلب میں لال مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ جامعہ حفصہ اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا جب یہاں کے طلبا نے 2007ء میں قرب و جوار میں لٹھ بردار کارروائیاں شروع کرتے ہوئے خود کو "ایک اخلاقی فورس" کے طور پر پیش کیا۔

مدرسے کے طلبا کی طرف سے چند چینی شہریوں کو غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں حبس بے جا میں رکھے جانےکے بعد جولائی 2007ء میں سکیورٹی فورسز نے مسجد میں انتہا پسندوں کی موجودگی پر آپریشن کیا جس میں 11 فوجیوں سمیت ایک سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

گزشتہ سال ایک بار پھر اس مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی طرف سے بعض متنازعات کے بعد لال مسجد توجہ کا مرکز بنی اور حکومت سے ان مطالبات میں اضافہ ہوا کہ وہ مولانا عزیز اور اسلام آباد میں قائم دیگر مدرسوں میں موجود مبینہ انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔

تاہم وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ وہ فورسز کو یہ حکم نہیں دے سکتے کہ وہ بندوقیں لے کر مدرسوں پر چڑھائی شروع کردے اور ان کے بقول جہاں سے بھی کسی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع موصول ہوگی ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG