رسائی کے لنکس

بھارت: بی جے پی ترجمان کے خلاف مبینہ توہینِ اسلام پر مقدمہ درج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے شہر ممبئی کی پولیس نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قومی ترجمان نوپور شرما کے خلاف قرآن اور پیغمبرِ اسلام کی شان میں مبینہ گستاخی پر مقدمہ درج کر لیا ہے۔

قانونی امور پر رپورٹنگ کرنے والے خبر رساں ادارے ’لائیو لا‘ کے مطابق پولیس نے ممبئی کی ایک تنظیم رضا اکیڈمی کی شکایت پر نوپور شرما کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور دو فرقوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے سے متعلق دفعات 295 اے، 153 اے اور تعزیرات ہند کی دفعہ 505 بی کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

نوپور شرما نے جمعے کو نشریاتی ادارے ’ٹائمز ناؤ‘ پر گیان واپی مسجد پر ہونے والے ایک مباحثے میں مبینہ طور پر گستاخانہ کلمات کہے تھے جب کہ ’ٹائمز ناؤ‘ نے خود کو اس تبصرے سے الگ کر لیا ہے۔

یہ رپورٹ رضا اکیڈمی کے جوائنٹ سیکریٹری عرفان شیخ کی شکایت پر درج کی گئی۔

میڈیا کے لیے جاری بیان کے مطابق انہیں مذکورہ مباحثے کی ویڈیو ملی تھی۔ اس میں نوپور شرما نے مبینہ گستاخانہ کلمات ادا کیے۔ اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ لہٰذا انہوں نے پائیدھونی پولیس اسٹیشن میں نوپور کے خلاف شکایت کی۔

قانونی امور سے متعلق ایک اور میڈیا ادارے ’لا ٹرینڈ‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک پولیس افسر کے مطابق نوپور شرما کا بیان دو مذہبی گروہوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دے سکتا ہے۔ اس لیے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

مذکورہ افسر کے مطابق اس معاملے پر آگے کی کارروائی سے قبل نوپور شرما سے وضاحت طلب کی جائے گی۔

ایک ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر نے نوپور شرما کے بیان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔

انہوں نے ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئےلکھا تھا کہ بھارت میں پرائم ٹائم دیگر مذاہب کے خلاف بولنے والوں کی حوصلہ افزائی کا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نشریاتی ادارے ’ٹائمز ناؤ‘ اور اس کی ایڈیٹر ناویکا کمار نفرت انگیزی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی ترجمان نے جو کچھ کہا ہے اس سے فرقہ وارانہ فساد بھڑک سکتا ہے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر نوپور شرما کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور صارفین ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے لگے۔متعدد صارفین نے انہیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

’قتل اور ریپ کی دھکیاں مل رہی ہیں‘

نوپور شرما نے الزام عائد کیا کہ زبیر نے ایڈٹ شدہ ویڈیو پوسٹ کی ہے۔ اگر ان کے یا ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ کچھ بھی ہوتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری زبیر پر عائد ہوگی۔

انہوں نے دہلی پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں زبیر پر فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کا الزام بھی لگایا۔

محمد زبیر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر پولیس پوری ویڈیو دیکھے گی تو انہیں یقین ہے کہ وہ از خود کارروائی کرتے ہوئے مذکورہ مباحثے میں مذہبی جذبات بھڑکانے کی وجہ سے نوپور شرما کے خلاف ایف آئی آر درج کرے گی۔

نوپور شرما نے قتل اور ریپ کی دھمکیوں سے متعلق کچھ ٹوئٹس کے اسکرین شاٹس پوسٹ کیے جس کے بعد دہلی پولیس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر بتایا کہ یہ معاملہ متعلقہ حکام کے سپرد کر دیا گیا ہے اور آپ (نوپور شرما) سے جلد ہی رابطہ قائم کیا جائے گا۔

محمد زبیر نے نوپور شرما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک صحافی کی حیثیت سے ان کے تبصرے کو شیئر کرکے وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ پولیس کو دھمکیوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے۔ یہ دھمکیاں انہیں ٹیلی ویژن پر ہونے والی براہِ راست بحث میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کہنے کا جواز نہیں ہو سکتیں۔ اگر کوئی واقعتاً نفرت اور تشدد کو ہوا دے رہا ہے تو وہ اور مذکورہ چینل ہیں، نہ کہ اس کی رپورٹنگ کرنے والے۔

’میں اس غیر مہذب خاتون کے ساتھ ڈبیٹ نہیں کر سکتا‘

مذکورہ ڈبیٹ میں نوپور شرما اور ایک سیاسی و سماجی تنظیم مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا (ایم پی سی آئی) کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے درمیان سوال جواب اور نوک جھونک کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی دوران نوپور نے مذکورہ بیان دیا۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جیسے ہی نوپور نے اشتعال انگیزی کی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے خود کو مباحثے سے الگ کر لیا کہ وہ ایسی غیر مہذب خاتون کے ساتھ بحث نہیں کر سکتے۔

تسلیم رحمانی کے اس قدم پر نشریاتی ادارے نے فوری طور پر اس بحث کو ختم کر دیا تھا اور اس بحث کو اپنے آفیشل ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل سے ہٹا دیا تھا۔ اس اقدام سے مبصرین کے مطابق نشریاتی ادارے کی صحافتی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

تسلیم رحمانی کا کہنا تھا کہ اس وقت نوپور شرما پارٹی میں الگ تھلگ ہیں۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اشتعال انگیزی کرکے پارٹی کے ذمہ داروں کی توجہ حاصل کر لیں گی۔

’میں عدالت میں جاؤں گا‘

تسلیم رحمانی نے بتایا کہ وہ نوپور شرما کو کوئی اہمیت نہیں دیتے البتہ انہوں نے بی جے پی سے پوچھا ہے کہ کیا اس کا بھی اسلام کے بارے میں وہی مؤقف ہے جو نوپور کا ہے۔ اگر نہیں ہے اور پارٹی ان کے بیان سے خود کو الگ کرتی ہے تو کیا ایک نوپور شرما کو پارٹی یا میڈیا پینل سے نکالا جائے گا؟

ان کے مطابق اگر بی جے پی نے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا تو پیر کے روز ان کی جانب سے پارٹی کو قانونی نوٹس جائے گا اور اگر اس کے بعد بھی کوئی جواب نہیں آیا تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ان کے مطابق وہ بی جے پی سے سوال پوچھیں گے نوپور شرما سے نہیں۔

تسلیم رحمانی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب کم از کم ایک ماہ ٹی وی کے کسی مباحثے میں نہیں جائیں گے اور تمام اپوزیشن پارٹیوں سے مل کر ان سے اپیل کریں گے کہ وہ موجودہ ماحول میں ٹی وی مباحثوں کا بائیکاٹ کریں۔

نوپور شرما کی مذمت جاری

نوپور شرما کی مبینہ اشتعال انگیزی کی سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے مذمت کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

ترنمول کانگریس کے قومی ترجمان ساکیت گوکھلے نے کہا کہ انہوں نے نئی دہلی کے چانکیہ پوری پولیس اسٹیشن میں نوپور شرما کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ ان کے مطابق شرما نے جو مبینہ اشتعال انگیزی کی ہے، اس پر ان کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔

حیدرآباد کی ایک تنظیم ’مشترکہ مجلس عمل‘ کی جانب سے حیدرآباد میں رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔

ایک ویب سائٹ ’نیوز بائٹس‘ کی رپورٹ کے مطابق مشترکہ مجلس عمل کے ایک وفد نے حیدرآباد کے پولیس کمشنر سی وی آنند سے ملاقات کی اور نوپور شرما اور ٹائمز ناؤ کے خلاف شکایت درج کرائی۔

ویلفیئر پارٹی نے بھی نوپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

پارٹی کے صدر ایس کیو آر الیاس نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ نوپور شرما کو فوری طور پر گرفتار کرکے جیل بھیج دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ ٹائمز ناؤ کو ایسے گستاخانہ کلمات ادا کرنے والوں کو اپنے شو میں مدعو کرنے پر پوری مسلم برادری سے معافی مانگنی چاہیے۔

انہوں نے بی جے پی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نوپور شرما کو فوری طور پر اپنی پارٹی سے برخاست کرے۔

تقریباً دو درجن مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نام ایک پیغام میں نوپور شرما کے بیان کی مذمت کی اور کہا کہ انہوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ وہ اس کو پسند نہیں کریں گے۔ ان کو چاہیے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نوپور شرما کے خلاف کارروائی کی ہدایت کریں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ’فورم فار سول رائٹس‘ کے چیئرمین سید منصور آغا نے کہا کہ پولیس کو فوری طور پر نوپور کے خلاف کارروائی کرکے انہیں گرفتار کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق ان کا بیان مسلمانوں کے جذبات مجروح کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بیان آئین و دستور کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا اس معاملے پر کارروائی ضروری ہے تاکہ آئندہ کوئی شخص ایسی گستاخی نہ کرے۔

ادھر یوتھ نیشنل کانفرنس کے ایک عہدے دار سلمان علی ساگر نے مبینہ اشتعال انگیزی پر نوپور شرما کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے سرینگر میں ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت کو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر غیر مشروط معافی مانگی چاہیے۔

انڈین امریکن مسلم کونسل (آئی اے ایم سی) نے بھی نوپور شرما کے بیان کی مذمت کی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG