کراچی ۔۔۔دنیا میں کسی بھی زبان اور ملک میں بننے والی فلموں کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ اس میں کوئی اداکارہ موجود نہیں ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ دراصل یہ فلم انڈسٹری ہی ہے جو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور حق تلفی کی ذمہ دار ہے۔
یہ بات، برطانوی اخبار ’دِی گارجین‘ نے یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے اینن برگ اسکول آف کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم کی جانب سے جاری رپورٹ کے حوالے سے بتائی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’فلم انڈسٹری میں ایک تہائی سے بھی کم رول ایسے ہوتے ہیں جن میں خواتین کو مرکزی حیثیت دی جاتی ہے۔بڑی اسکرین کی ورک فورس میں خواتین کی تعداد محض 22.5فیصد ہے۔ دیگر شعبوں میں بھی خواتین کے لئے صورتحال حوصلہ افزا نہیں او ر سیاست سے لے کر سائنس تک تمام اہم شعبوں میں نمایاں پوزیشن پر موجود خواتین صرف 15فیصد ہیں۔
اقوام متحدہ کے حقوق نسواں کے ذیلی ادارے نے بھی رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انٹرنیشنل فلم انڈسٹری میں خواتین اور لڑکیوں کو ایک ہی طرح کے گھسے پٹے رولز دئیے جاتے ہیں جو زیادہ تر نمائشی نوعیت کے ہوتے ہیں۔‘
ایکٹر اور سوشل ایکٹوسٹ جینا ڈیوس کا کہنا ہے کہ ’پوری دنیا کے فلم میکرز خواتین کو پاورفل رولز دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے باوجود، فلم انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد مختلف شعبوں میں خواتین چیف ایگزیکٹو آفیسرز سے کہیں زیادہ ہے۔‘
تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسٹریلیا، برازیل، چین، جرمنی، انڈیا، جاپان، روس، جنوبی کوریا، امریکا اور برطانیہ کی فلموں کے تجزئیے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ فلموں میں مرد اداکار کی بہ نسبت اداکاراوٴں کو زیادہ بے باک انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
’یو این ویمن‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، فومزیلا لامبو کا کہنا ہے کہ رپورٹ گلوبل فلم انڈسٹری کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد تک پہنچنے اور اثر و رسوخ کی وجہ سے جنس کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلو ک کے خاتمے اور خواتین کو برابری کے حقوق دلانے میں میڈیا بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب اقوام متحدہ نے فلم انڈسٹری کو جنس کی بنیاد پر عدم توازن کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔سال 2013میں سن ڈانس فلم فیسٹول نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ہالی وڈ کی صف اول کی ہیروئنز بھی جب ڈائریکٹر بنتی ہیں تو انہیں کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔