فٹبال کی عالمی تنظیم 'فیفا' نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے فٹبال فیڈریشن کے معاملات بدھ تک حل نہ کیے تو اس کی رکنیت معطل کر دی جائے گی۔
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے فیفا سے اپیل کی ہے کہ وہ رکنیت معطل کرنے میں جلدبازی کے بجائے پاکستان کو مزید مہلت دے۔
بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اُنہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ افہام و تفہیم سے معاملات حل کریں تاکہ ملک میں فٹبال کے فروغ کی کوششیں جاری رکھی جا سکیں۔
فٹبال تنظیموں کا تنازع ہے کیا؟
پاکستان میں فٹبال فیڈریشن پر کنٹرول کا تنازع گزشتہ کئی ماہ سے چلا آ رہا ہے جس کے حل کے لیے فیفا نے نارملائزیشن کمیٹی تشکیل دی تھی۔ تاہم چند روز قبل پاکستان فٹبال فیڈریشن کے متنازع صدر اشفاق حسین نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے ہیڈکوارٹرز فیفا ہاؤس کا زبردستی کنٹرول سنبھال لیا۔
منگل کو فیفا کی جانب سے فیفا ہاؤس لاہور کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر بدھ کی شب تک فیفا ہاؤس کا کنٹرول نارملائزیشن کمیٹی کے سپرد نہ کیا گیا تو پاکستان کی رُکنیت معطل کر دی جائے گی۔
پاکستان میں فٹبال فیڈریشن کے معاملات چلانے کی دو تنظیمیں دعوے دار ہیں جن میں ایک تنظیم اشفاق حسین جب کہ دوسری کے سربراہ نوید خان ہیں۔
اشفاق حسین گروپ کا دعویٰ ہے کہ 2018 کے انتخابات میں اُنہیں واضح کامیابی ملی تھی۔ لہذٰا 2023 تک وہی فیڈریشن چلانے کے حق دار ہیں جب کہ نوید خان اُن انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے۔
ادھر حالیہ تنازع کی وجہ سے کراچی میں جاری خواتین کی فٹبال چیمپئن شپ بھی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے جس کے بارے میں اشفاق حسین گروپ کا کہنا ہے کہ وہ شیڈول کے مطابق جاری ہے۔
البتہ، نارملائزیشن کمیٹی نے چیمپئن شپ سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا ہے جب کہ اشفاق حسین گروپ کا مؤقف ہے کہ چیمپئن شپ جاری رہے گی۔
نارملائزیشن کمیٹی کے سربراہ ہارون ملک کا کہنا تھا کہ ان میچز کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون ملک نے بتایا کہ پاکستان میں فٹبال سے متعلق تنازعات ایک ہی دن میں حل نہیں ہو سکتے۔
اُنہوں نے کہا کہ کمیٹی نے اپریل کے پہلے ہفتے میں نئے انتخابات کا شیڈول دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس سے قبل ہی ایک دھڑے نے فیفا ہاؤس پر دھاوا بول دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ دھاوا بولنے والے گروپ کو اس بات کا ادراک ہے کہ عالمی تنظیم اس اقدام پر سخت کارروائی کر کے پاکستان کی رُکنیت معطل کر سکتی ہے اور مزید پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔
'نقصان صرف کھیل کا ہی ہو گا'
ہارون ملک کا کہنا تھا کہ اس ساری صورتِ حال میں صرف کھیل کا نقصان ہو گا کیوں کہ نارملائزیشن کمیٹی نے پورے سال کا شیڈول طے کیا تھا۔ جس کے تحت ویمن فٹبال چیمپئن شپ، رمضان کے بعد نیشنل کیمپ کے انعقاد، خواتین فیفا چیمپئن شپ کے علاوہ غیر ملکی ٹیموں کو بھی دورے کی دعوت دی تھی۔
خیال رہے کہ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا پاکستان میں فٹبال کے فروغ کے لیے فنڈز دیتی ہے جو ملک میں انفراسٹرکچر، کھلاڑیوں کی تربیت سمیت دیگر شعبوں میں خرچ کیے جاتے ہیں۔
دوسرے گروپ کے صدر نوید خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں فٹبال فیڈریشن کی موجودہ صورتِ حال غور طلب ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نوید خان نے کہا کہ فیفا پاکستان کی رکنیت معطل کرتا ہے یا نہیں اِس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔
اُنہوں نے کہا کہ اُن کی تنظیم باقاعدہ منتخب شدہ ہے، لیکن کچھ لوگوں نے فیفا سے غلط بیانی کی اور انتخابات میں حکومتی مداخلت ہوئی ہے۔
نوید خان نے الزام عائد کیا کہ فیفا کی جانب سے پاکستان میں نامزد کمیٹی نے انتخابات کے علاوہ سارے کام کیے ہیں۔ جو اُن کا مینڈیٹ تھا کہ چھ ماہ سے نو ماہ کے اندر انتخابات کرائے جائیں وہ اُنہوں نے نہیں کرائے۔ اُن کے مطابق فیفا کی نامزد ٹیم نے 15 ماہ ضائع کر دیے۔
خواتین فٹبالر مایوس
فیفا ہاؤس لاہور کے معاملات کی وجہ سے خواتین فٹبال چیمپئن شپ کے مستقبل پر کوارٹر فائنل مرحلے سے قبل ہی غیر یقینی کے بادل چھا گئے تھے جس پر خواتین کھلاڑیوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک تو پہلے ہی پاکستان فٹبال کی عالمی درجہ بندی میں بہت نیچے ہے اور اب آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے ملک میں کھیل کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے۔
خواتین چیمپئن شب میں بطور کوچ شریک حنا جاوید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک سال میں خواتین کی ایک ہی چیمپئن شپ ہوتی ہے اور اب اس کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔
حنا کہتی ہیں کہ یہ بدقسمتی ہے کہ یہ کھیل بھی سیاست کی نذر ہو رہا ہے۔
حنا جاوید نے بتایا کہ چیمپئن شپ میں بہت سی ایسی کھلاڑی ہیں جو اپنی ملازمت چھوڑ کر یا بغیر تنخواہ کے چھٹیاں لے کر یہ چیمپئن شپ کھیلنے کے لیے آئی ہیں۔ اِس چیمپئن شپ میں 20 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جس میں 316 خواتین کھلاڑی شامل ہیں۔
کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی اقصیٰ کہتی ہیں کہ اس چیمپئن شپ کا اُنہیں سارا سال انتظار رہتا تھا۔ لیکن اب یہ بھی متنازع ہو گئی ہے جس کا اُنہیں افسوس ہے۔
اقصٰی نے مزید کہا کہ پہلے اُنہیں دو گروپوں کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے میچز کے منسوخ ہونے کا بتایا گیا تو انہیں بہت دکھ ہوا، بعد ازاں معلوم ہوا کہ ایک گروپ نے چیمپئن شپ دوبارہ شروع کر دی ہے۔ اقصٰی نے کہا کہ اس صورتِ حال میں کھلاڑی کس طرح کھیل پر توجہ مرکوز رکھیں؟