رسائی کے لنکس

پاکستانی خواتین کھلاڑیوں کے لیے ’حالات بدل رہے ہیں‘


پاکستانی معاشرے میں کچھ عرصہ قبل تک کھیل کے میدان میں لڑکیوں کو جن مشکلات کا سامنا تھا اب اُن کے لیے بظاہر کچھ حالات بدل رہے ہیں۔

ایک غیر سرکاری ادارے ’رائیٹ ٹو پلے‘ نے امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس ایڈ‘ کے تعاون سے رواں ہفتے لڑکیوں اور خواتین کے لیے کھیل کے مواقع بڑھانے سے متعلق اسلام آباد میں ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا، جس میں پاکستان کی اُن نوجوان خواتین کھلاڑیوں کو بھی مدعو کیا گیا جو کہ اب ایک ’’رول ماڈل‘‘ یا معاشرے میں ایک مثالی کردار بنتی جا رہی ہیں۔

اس ورکشاپ میں امریکہ کے غیر سرکاری اداروں سے وابستہ خواتین ماہرین کھیل نے بھی شرکت کی اور اپنے تجربات سے پاکستانی خواتین کو آگاہ کیا۔

’وویمن ون‘ نامی ایک تنظیم کی امریکہ میں ڈائریکٹر سیرا میری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس ورکشاپ کا مقصد کھیلوں سے وابستہ خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

امریکہ میں ڈائریکٹر سیرا میری
امریکہ میں ڈائریکٹر سیرا میری

اُنھوں نے کہا کہ اس ورکشاپ میں ہم نے زیادہ بات اس بارے میں کی کہ (پاکستانی خواتین کھلاڑی) کس طرح اپنے تجربے کو بنیاد بنا کر نوجوان کھلاڑیوں کے لیے مثال بن سکتی ہیں۔

پاکستانی خاتون تیراک کرن خان کہتی ہیں کہ اُنھوں نے 2001ء میں سوئمنگ شروع کی تھی اور اُن کے بقول اب وہ اس میدان میں تنہا نہیں ہیں۔

پاکستانی خاتون تیراک کرن خان
پاکستانی خاتون تیراک کرن خان

’’2001ء میں یہ تھا کہ اس وقت مجھے لگتا تھا کہ لوگ بہت کم ہیں، مجھے لگتا تھا اس وقت شاید میں ایک اکیلی ہوں یا میرے ساتھ پانچ چھ لوگ اور ہیں لیکن اب میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو (یہ محسوس ہوتا ہے کہ مجھے) دیکھ کر کتنے لوگوں نے سوئمنگ شروع کی۔‘‘

کرن کہتی ہیں کہ اُنھیں ناصرف پاکستان کے لیے بین الاقوامی اعزاز جیتنے کی خوشی ہے بلکہ وہ کئی نوجوان خواتین کے لیے رول ماڈل ثابت ہوئیں۔

’’ایک ایسا کھیل شروع کیا جس کا کوئی مستقبل نہیں تھا اور ابھی اسی کا مستقبل روشن ہے اور ان دی سینس کہ میں ایک رول ماڈل بن سکی ہوں باقی سب کے لیے۔‘‘

پاکستانی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ہاجرہ خان بھی یہ سمجھتی ہیں کہ اب ملک میں حالات بدل رہے ہیں۔

پاکستانی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ہاجرہ خان
پاکستانی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ہاجرہ خان

’’جیسے میں، جیسے ثنا میر کرکٹ کے لیے آئی ۔۔۔ یہ مثالیں دیکھ کر والدین کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے کہ ہماری بیٹیاں اس کھیل کو بھی پروفیشن بنا سکتی ہیں جو کہ دس سال پہلے نہیں تھا اس طرح سے مائنڈ سیٹ ابھی بہت آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا ہے جہاں والدین لڑکیوں کو اجازت دے رہے ہیں اور کھیلنے دے رہے ہیں تو میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی بہتری ہے اور مثبت تبدیلی آ رہی ہے۔‘‘

’وویمن ون‘ نامی ایک تنظیم کی امریکہ میں ڈائریکٹر سیرا میری کہتی ہیں کہ اُنھیں یہاں خواتین کھلاڑیوں سے مل کر یوں لگا کہ حالات ماضی جیسے نہیں رہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پانچ، دس سال قبل اتنی خواتین کھلاڑی ہی نہیں تھیں کہ وہ اپنی ٹیم بنا سکیں۔

’’میں پاکستان سے نہیں ہوں، لیکن یہاں خواتین کھلاڑیوں سے بات کرنے کے بعد لگتا ہے کہ یہاں بہت ٹیلنٹ ہے، بہت سے تبدیلی آئی ہے اور خواتین اب کیمرے کے سامنے اس طرح بات کرتی ہیں۔‘‘

’رائیٹ ٹو پلے‘ تنظیم کے پاکستان میں پروگرام مینجر ذوالفقار شیخ کہتے ہیں کہ اُن کی تنظیم کی یہ کوشش ہے کہ لڑکیوں کی کھیل میں شمولیت کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔

’’میرے خیال میں حالات کافی حد تک مثبت ہوتے جا رہے ہیں اور خاص طور پرجس طرح کی سہولیات اور مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور بہت سی رول ماڈلز ہیں جن کو ہم بھی پروموٹ کر رہے ہیں یہ چیزیں کافی فرق ڈالیں گی۔‘‘

اگرچہ پاکستان شہری علاقوں میں تو لڑکیوں کے لیے کھیل کے مواقع کسی حد تک موجود ہیں لیکن ماہرین کھیل کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں بسنے والی لڑکیوں کے لیے بھی اُن کی روایتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سہولتوں کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG