امریکی اٹارنی جنرل، لوریتا لِنچ نے کہا ہے کہ فٹبال کا انتظامی ادارہ، (فیفا) ’دو عشروں سے زائد مدت سے فریب، بدعنوانی اور رشوت ستانی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے‘۔
لِنچ نے یہ بات بدھ کے روز نیو یارک میں منعقدہ ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، ایسے میں جب وفاقی جرائم کے تحت، فیفا سے وابستہ 14 افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
لِنچ نے اِس بات پر زور دے کر کہا کہ بدعنوانی کے زمرے میں آنے والے ’یہ الزامات سرایت کر گئے ہیں، نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور بہت گہری نوعیت کے ہیں۔۔ جن کے باعث، کئی لوگ اِس کی زد میں آکر نقصان پا چکے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس میں، سنہ 1991 سے اب تک، فیفا کی تنظیموں سے واسطہ رکھنے والے حکام کی دو نسلیں شامل ہیں، جہاں کھیلوں کی مارکیٹ سے وابستہ ادروں سے رشوت کا تقاضا کیا جاتا رہا، جس کے عوض اُنھیں فٹبال کے ٹورنامنٹس میں تجارتی حقوق دیے جاتے ہیں۔
لِنچ کے بقول، ’اُنھوں نے یہ عمل بار بار دہرایا، سال بہ سال ایسا کیا۔۔ ایک ٹورنامنٹ کے بعد دوسرے ٹورنامنٹ میں ایسا ہوا‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’ملزمان نے دنیا بھر کے فٹبال کے کاروبار کو بدعنوانی کی راہ پر لگایا، جن کا مقصد اپنے ذاتی مفادات کو فروغ دینا اور امیر بننے کا سامان پیدا کرنا ہے‘۔
یہ فردِ جرم 14 موجودہ اور سابقہ اہل کاروں کے خلاف 47 شقوں کے تحت عائد کی گئی ہے، جِس میں بے ضابطگیاں، پیسے کا گھپلا، اور رقوم کی غیرقانونی ترسیل شامل ہے؛ جس کے لیے ایک ایسی اسکیم شروع کی گئی جس کے لیے استغاثے کا کہنا ہے کہ یہ اِس مین اسپورٹس میڈیا کے انتظامی سربراہان شامل تھے؛ اور جس میں ٹورنامنٹس کے مارکیٹنگ رائٹس کے بدلے لاکھوں ڈالر ہڑپ کرنا شامل تھا۔
اٹارنی جنرل کے بقول، ’بدعنوانی اور رشوت ستانی اسپورٹس مارکیٹنگ کے علاوہ، سنہ 2011 کے فیفا کے صدارتی انتخابات تک پھیل چکی تھی؛ اور اس میں سمجھوتے تک شامل ہیں؛ جن میں اسپورٹس کے لباس تیار کرنے والی ایک اہم امریکی کمپنی بھی شامل ہے۔