افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں پولیس کی وردیوں میں ملبوس دو مسلح افراد نے ایک غیر ملکی خاتون کو اغوا کر لیا ہے۔
ابھی اس واقعے کی زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں مگر ننگرہار صوبے کے پولیس چیف زرآور زاہد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مغوی خاتون آسٹریلوی شہری ہیں۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق آسٹریلیا کی وزیر خارجہ جولی بشپ نے جمعہ کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کی حکومت یہ تعین کرنے کے لیے کہ کیتھرین جین ولسن کے ساتھ کیا ہوا افغان حکام سے رابطے میں ہے۔
’’افغان حکام سے ان خبروں کی تصدیق کی جا رہی ہے مگر ان (افغان حکام) کا یقینی طور پر خیال ہے کہ انہیں اغوا کر لیا گیا ہے۔ ہم تمام تفصیلات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر (اس دوران) ہم ان کے اہل خانہ سے رابطے میں ہیں۔‘‘
کیری کے نام سے معروف اس خاتون کے والد نے ان کی بحفاظت واپسی کے لیے اپیل کی ہے۔
آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں مقیم برائن ولسن نے اپنی بیٹی کی بحفاظت واپسی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی بیشتر زندگی علاقے کی عورتوں کی زندگیاں بہتر بنانے میں صرف کی۔
اے پی کے مطابق کیتھرین کی عمر 60 سال سے زائد ہے اور وہ کئی سال سے افغانستان میں مقیم ہیں اور زردوزی نامی ادارہ چلاتی ہیں۔ یہ تنظیم غریب افغان عورتوں کی کشیدہ کاری والی اشیا فروخت کر کے ان کی معاونت کرتی ہے۔
آسٹریلوی وزیر خارجہ جولی بشپ نے اس تجویز کو مسترد کیا ہے کہ آسٹریلیا ان کی رہائی کے لیے تاوان ادا کرے گا۔
’’آسٹریلیا کی حکومت کی پالیسی ہے کہ وہ اغوا کاروں کو تاوان ادا نہیں کرتی۔‘‘
مقامی ذرائع کے مطابق کیتھرین سپنگر ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں مگر بدھ کی رات انہوں نے جلال آباد کے علاقے انگور باغ میں زردوزی کی عمارت میں اپنے مقامی ساتھیوں کے ہاں رہنے کا فیصلہ کیا۔
جمعرات کی صبح مسلح افراد عمارت میں داخل ہوئے انہیں اغوا کر کے لے گئے۔ تاہم کسی نے اب تک اس اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
گزشتہ دو ماہ میں جلال آباد میں ہونے والا یہ دوسرا اغوا ہے۔ اس سے قبل مسلح افراد نے افغانستان کے چیف جسٹس کے والد کو اغوا کیا تھا مگر سکیورٹی فورسز نے بعد میں انہیں بازیاب کروا لیا تھا۔
افغانستان میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے اغوا برائے تاوان سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔