ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے یورپی ملکوں نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین کو فوری طور پر اجلاس منعقد کرنا چاہیے، تاکہ ایران کی جانب سے سمجھوتے پر عمل درآمد کے معاملے کو زیر غور لایا جا سکے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین نے منگل کے روز اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا، جس سے ایک ہی روز قبل اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے تصدیق کی کہ یورینئم کی افزودگی سے متعلق 2015ء کے جوہری معاہدے کی حدوں سے تجاوز کیا گیا ہے۔
ایک مشترکہ بیان میں یورپی فریقین نے کہا ہے کہ ’’حکمت عملی کے حامل مشترکہ مربوط معاہدے میں دی گئی متعدد ضمانتوں پر عمل درآمد نہ ہونے پر ہمیں شدید تشویش ہے‘‘۔
یورپی ملکوں کے سربراہان نے کہا ہے کہ ایران نے انھیں بتایا ہے کہ وہ معاہدے میں رہنے کا خواہاں ہے۔ لیکن یہ کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایران ’’سمجھوتے کے مطابق اقدام کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کا رخ پلٹ دے، اور فوری طور پر اور بغیر کسی تاخیر کے جوہری معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے‘‘۔
فرانسیسی صدر امانوئیل میکخواں کے چوٹی کے سفارت کار اِن دنوں ایران کے دو روزہ دورے پر ہیں تاکہ تناؤ میں کمی لائی جا سکے۔ میکخواں اور ایرانی صدر حسن روحانی نے گذشتہ اختتام ہفتہ 15 جولائی کی حتمی تاریخ طے کی تھی، تاکہ یورینئم کی افزودگی سے متعلق معاملہ طے کیا جا سکے۔
جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے کہا ہے کہ اس کے معائنہ کاروں نے پیر کے روز اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے معاہدے کی رو سے بھاری پانی کو افزودہ کرنے کی 3.67 فی صد کی حد عبور کر لی ہے۔ معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار تشکیل دینے سے باز رکھنا تھا، جس کے بدلے اس کے ساتھ تعزیرات میں نرمی برتی جائے۔
اس میں یہ وضاحت نہیں دی گئی کہ ایران نے اس حد سے کتنا تجاوز کیا ہے۔ لیکن ایسو سی ایٹڈ پریس نے ایٹمی توانائی کے ایران کے ادارے کے ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نے بھاری پانی کو تقریباً 4.5 فی صد تک افزودہ کیا ہے۔
اس سے قبل ایران نے کہا تھا کہ وہ جوہری معاہدے سے ہٹ کر یورینئم کی افزودگی کو 20 فی صد تک بڑھا سکتا ہے۔
یورینئم کی افزودگی میں پانچ فی صد کی حد جوہری بجلی گھروں کی ضرورت کے لیے کافی ہے۔ تاہم، یہ 90 فی صد کی حد سے کہیں نیچے ہےجس سے نیوکلیئر ہتھیار تشکیل دیے جا سکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال امریکہ کو جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور ایران کے خلاف سخت تعزیرات عائد کر دی تھیں۔
ایران پہلے ہی سمجھوتے کےکچھ حصوں سے دور جا چکا ہے اور دھمکی دے چکا ہے کہ وہ اس سے مزید دور ہوجائے گا، اگر باقی فریقین برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس اسے تباہ کن امریکی تعزیرات سے اقتصادی نرمی دلانے میں مدد نہیں کرتے۔