امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ بہتر ہوگا کہ احتیاط برتی جائے، جس سے قبل اتوار کو ایران نے بتایا تھا کہ وہ 2015ء کے جوہری معاہدے میں یورینئم کی افزودگی کی متعین کردہ حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔
اُنھوں نے اخباری نمائندوں کو کسی مخصوص رد عمل کے بارے میں نہیں بتایا جو ان کی انتظامیہ سوچ رہی ہے، لیکن اس بات کا اعادہ کیا کہ ’’ایران کے پاس کبھی جوہری ہتھیار نہیں ہو گا‘‘۔
ٹرمپ نے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے بیان کے چند ہی گھنٹوں بعد اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ اس فیصلے پر ایران ’’مزید تنہائی اور تعزیرات‘‘ کی زد میں آئے گا۔
پومپیو کے الفاظ میں ’’ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے لیے افزودہ پانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تمام ممالک کو چاہیئے کہ طویل مدت سے قائم اس معیار پر مؤقف جاری رکھیں۔ اگر ایران کی حکومت کے پاس جوہری ہتھیار آجائیں تو وہ دنیا کے لیے اس سے بھی کہیں زیادہ خطرے کا باعث بن جائے گی‘‘۔
برطانیہ نے ایران پر زور دیا ہے کہ سمجھوتے کے برخلاف تمام اقدامات کو ’’فوری طور پر بند کرے اور انہیں روک دے‘‘، جس معاہدے کے تحت اقتصادی تعزیرات میں نرمی کے عوض ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر قدغنیں قبول کی تھیں۔
فرانس نے کہا ہے کہ ایران کا یہ اقدام بین الاقوامی معاہدے کی ’’خلاف ورزی‘‘ ہے۔
ایران سے موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اہلکار افزودگی میں 5 فی صد تک اضافہ کر سکتے ہیں، جو ایندھن جوہری توانائی کے پلانٹس کے لیے درکار حد کے لیے کافی ہے؛ لیکن پھر بھی یہ 90 فی صد کی حد سے بہت ہی نیچے ہے، جو درجہ جوہری ہتھیار تشکیل دینے کے لیے چاہیے ہے۔ موجودہ سمجھوتے کے تحت 3.67 فی صد کی حد لاگو ہے۔
لیکن، ایران کے سخت مخالف، اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ یورینئم کی افزودگی صرف ایٹمی بم تیار کرنے کے لیے کی جاتی ہے‘‘۔
ٹرمپ نے گذشتہ سال امریکہ کو نیوکلیئر معاہدے سے الگ کر لیا تھا، اور ایران پر معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے نتیجے میں ایرانی معیشت شدید طور پر تباہ ہو چکی ہے۔