مشرقی یورپ میں واقع ملک، ’چیک ری پبلک‘ کا دارالحکومت پراگ ایک چھوٹا اور خوبصورت شہر ہے، جو کئی تاریخی مقامات کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے۔
یہاں کا ’چارلس برج‘ ہر روز آنے والے ہزاروں سیاحوں کا مقبول ترین مقام ہے۔ اس پل کے ایک حصے میں جنگلے پر آپ کو ’تالے ہی تالے‘ دکھائی دینگے۔ اسے ’لو لوک‘ کہا جاتا ہے۔
یہاں پر سیاح اپنے پیاروں کے نام کا تالا لگا کر چابی دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح ان کی محبت تا حیات قائم رہتی ہے۔
روزانہ سیکڑوں لوگ یہاں پر رنگ برنگے، چھوٹے بڑے تالے لگاتے ہیں۔ کچھ ساتھ لاتے ہیں اور کچھ قریب بیٹھے وینڈرز سے یہ تالے خریدتے ہیں، اور یوں، وہ ان تالوں پر اپنے پیاروں کا نام لکھ کر چلے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ’رومانس اور یورپ‘ لازم و ملزوم ہیں۔
یہی ایک وجہ ہے کہ محبت کے تالے والے یہ پل صرف پراگ شہر میں ہی نہیں بلکہ فرانس کے شہر پیرس، اٹلی کے شہر روم اور جرمنی کے شہر کلون سمیت یورپ کے کئی ملکوں میں پائے جاتے ہیں، جہاں لوگ تالا لگا کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ یورپ بھر کے ملکوں میں مشہور و معروف پلوں پر محبت کے اظہار کے لئے تالے لگانے کا رواج اگرچہ صدیوں پرانا ہے، لیکن گزشتہ سالوں سے اس میں کچھ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ سال 2006ء میں سامنے آنے والے ایک اطالوی ناول ’آئی وانٹ یو‘ ہے۔ جس نام سے بعد میں ایک فلم بھی بنائی گئی۔
اس فلم میں دو عاشق اٹلی کے ایک برج پر اپنے نام کا ایک تالا لگاتے ہیں۔ اس ناول کی بے پناہ مقبولیت کے بعد کئی فلموں میں یہ ’ٹرینڈ‘ دیکھنے میں آیا، چاہے وہ ہالی ووڈ کی فلمیں ہوں یا بالی ووڈ کی۔
ان تالوں کو دیکھ کر کچھ سوالات ذہن میں ضرور آتے ہیں کہ آخر یہ تالے جاتے کہاں ہونگے؟ یہ ندی تو اب تک لاکھوں چابیوں سے بھرنے والی ہوگی۔ اور کیا اتنے سالوں میں اس کے لئے یہ جگہ کم نہیں پڑی؟
یہ سب سوالات تو اپنی جگہ، لیکن کبھی کبھار محبت کا بے جا اظہار بھی ناگوار گزرتا ہے۔ اس لئے پراگ میں ہی ماحول کو درپیش خطرے کے پیش نظر ہر ہفتے اوزاروں کی مدد سے سو سے زیادہ تالے یہاں سے توڑ توڑ کر ہٹائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو تالوں کے وزن سے اس تاریخی پل کو نقصان پہنچ رہا ہے، دوسرا یہ کہ دریا میں چابیاں گرانے سے بھی اس کے ماحول اور جنگلی حیات کو خطرہ ہے۔
پیرس کے تالوں والے پل کا ایک حصہ 2014ء میں اسی سبب ٹوٹ کر گر گیا تھا، جس کے بعد، اب یورپ میں تاریخی ورثے کے لئے کام کرنے والے لوگ اس کے خلاف مہم بھی چلا رہے ہیں، تاکہ تالے لگانے کا یہ رواج ختم کیا جاسکے۔
لیکن، ان لوگوں کا کیا ہوگا جو اس نیت سے یہاں یہ تالے لگا کر گئے تھے کہ ان کی محبت اب لازوال ہو چکی ہے۔