پاکستانی پارلیمان کی ایک کمیٹی نے انتخابی عمل کو صاف و شفاف بنانے اور ملک میں انتخابات کا انعقاد کرانے والے آئینی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظامی اور مالیاتی طور پر خود مختار بنانے کے لیے ایک مجوزہ بل کی منطوری دی ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور اس وقت ملک میں ایک سیاسی بے چینی کی کیفیت جاری ہے۔ دوسری طرف حزب مخالف کی بعض جماعتیں وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے، جسے وہ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
جمعے کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انتخابی اصلاحات کے مجوزہ بل 2017ء کی تفصیلات بتائے ہوئے کہا کہ موجودہ آٹھ انتخابی قوانین کو اس بل میں شامل کر دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ "تمام انتخابی قوانین کو اکھٹا کرکے ایک (مجوزہ) قانون بنا دیا گیا ہے۔ اس کی رپورٹ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کر دی جائے گی اور جب پارلیمان اس قانون کو منظور کر لے گی تو اس کے بعد سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے جو بھی انتخابات ہوں گے وہ اس قانون کے مطابق ہوں گے۔"
انتخابی اصلاحات کے لیے سفارشات مرتب کرنے کے لیے 2014ء میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے کئی اجلاس ہوئے اور حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی ان میں حصہ لیتی رہی۔ تاہم، کمیٹی کی طرف سے پیش کی گئی حتمی سفارشات پر تحریک انصاف سمیت بعض جماعتیں متفق نہ ہوئیں اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی طرف سے انتخابی اصلاحات کے لیے چار مطالبات پیش کیے گئے، جن میں الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینا، بائیومیٹرک سٹم کے ذریعے ووٹروں کی شناخت کرنے کا نظام متعارف کروانا اور نگراں حکومت کو تمام جماعتوں کی رضامندی سے قائم کرنا شامل ہے۔
عمران خان نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ "ایک ایسا الیکشن کمیشن ہونا چاہیئے جس پر سب کو اعتماد ہو صرف یہی نہیں کہ حکومت کو اس پر اعتماد ہو۔ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کو اس پر اعتماد ہونا چاہیئے۔ "
سیاسی امور کے تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پی ٹی آئی نے انتخابی اصلاحات سے متعلق کئی بنیادی سوالات اٹھائے ہیں۔ تاہم، الیکشن کمشین کی تشکیل نو کرنا آئینی طور پر ممکن نہیں ہے۔
بقول اُن کے، "میرے خیال میں، پی ٹی آئی کو یہ بتانا چاہیئے کہ یہ تقریباً ناممکن بات ہے ۔۔۔ اس لیے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ افہام و تفہیم سے یہ معاملہ طے ہونا چاہیئے۔ ان (پی ٹی آئی) کو اس بات کا پوری طرح اداراک نہیں ہے کہ اس مطالبے کو ماننا کسی کے بس میں نہیں ہے اگر پی ایم ایل (ن) مان بھی لے تو بھی اس کی راہ میں قانونی اور دستوری رکاوٹیں حائل ہیں۔ "
احمد بلال نے کہا کہ جہاں تک ووٹنگ کے عمل میں بائیو میٹرک نظام کو متعارف کروانے کے مطالبے کا تعلق ہے اس کے لیے بھی وقت درکار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ الیکشن کمشین نے کچھ مشینیں حاصل کی ہیں۔ تاہم، ابھی تک انہیں تجرباتی بنیادوں پر متعارف نہیں کروایا جا سکا اور، ان کے بقول، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کے عمل میں شامل کرنے کے لیے بھی وقت چاہیئے۔
احمد بلال نے مزید کہا کہ جہاں تک نگران حکومت کی تشکیل کے معاملے کا تعلق ہے اس کی راہ میں کوئی عملی دشواری نہیں ہے اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے یہ معاملہ دستوری طور پر طے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، ان کے بقول، اس کے لیے، افہام و تفہیم کے عمل کو جاری رکھنا ہوگا۔