پاکستان میں 25 جولائی کو ہونے والے گیارہویں عام انتخابات کے لیے جاری انتخابی مہم آج رات 12 بجے ختم ہوجائے گی اور ایک روز کے وقفے کے بعد بدھ کو ملک بھر میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔
انتخابی مہم کے آخری روز ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور مختلف حلقوں میں امیدوار اور سیاسی جماعتوں کے قائدین جلسوں اور کارنر میٹنگز سے خطاب کر رہے ہیں۔
انتخابی مہم کا وقت ختم ہونے کے بعد کوئی امیدوار کوئی عوامی سرگرمی یا اجتماع منعقد نہیں کرسکے گا جب کہ ذرائع ابلاغ پر بھی سیاسی جماعتوں کے اشتہارات نشر اور شائع کرنے پر پابندی ہوگی۔
دریں اثنا ملک بھر میں بدھ کو ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تیاریاں حتمی مرائل میں داخل ہوگئی ہیں اور بیلٹ پیپرز اور دیگر انتخابی مواد کی حلقوں کو ترسیل کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔
انتخابی عمل کو فول پروف بنانے کی غرض سے پولیس اور رینجرز کے ساتھ ساتھ فوج سے بھی مدد لی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق آٹھ ہزار نیوی اور ائیر فورس کے جوانوں سمیت تین لاکھ 71 ہزار 388 فوجی اور تین لاکھ 82 ہزار پولیس اہلکاروں نے پیر کو انتخابات کی سکیورٹی کی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔
انتخابی عملے اور سکیورٹی اہلکاروں نے پیر کی دوپہر تک ان عمارتوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے جہاں پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔
سکیورٹی پلان کے مطابق ہر پولنگ اسٹیشن پر دو فوجی اندر جبکہ دو باہر اپنی ڈیوٹی انجام دیں گے۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب کے مطابق منگل کو بیلٹ پیپرز اور دوسرا انتخابی مواد فوج کی نگرانی میں ریٹرننگ افسران کے دفاتر سے پولنگ اسٹیشنز پہنچایا جائے گا۔
ملک بھر میں حساس قرار دیے جانے والے پولنگ اسٹیشنز پر کیمروں کی تنصیب کا کام بھی مکمل کرلیا گیا ہے۔
گیارہویں پارلیمانی انتخابات
بدھ کو ہونے والے انتخابات پاکستان کے گیارہویں عام انتخابات ہیں۔ اس سے قبل 1977ء، 1985ء، 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء، 2008ء اور 2013ء میں الیکشن ہوئے تھے۔
نشستوں اور امیدواروں کی تعداد
بدھ کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 272 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 849 نشستوں پر ووٹنگ ہوگی جن پر 11 ہزار 855 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں خیبر پختونخوا اور فاٹا کی بالترتیب 39 اور 12، پنجاب کی 141، سندھ کی 61، بلوچستان کی 16 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تین نشستیں ہیں۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 297، سندھ کی 130، خیبر پختونخوا کی 99 اور بلوچستان کی 51 نشستیں ہیں۔
ان نشستوں پر انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں 85 ہزار پولنگ اسٹیشنز قائم کیے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی تعداد
الیکشن ایکٹ 2017ء کے نفاذ سے قبل الیکشن کمیشن میں 350 پارٹیاں رجسٹرڈ تھیں جن کی تعداد اب 122 رہ گئی ہے۔ تاہم 2018ء کے انتخابات میں 122 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں جنہیں الیکشن کمیشن نے 107 انتخابی نشان جاری کیے ہیں۔
پولنگ اسٹیشنز اور عملہ
انتخابات کے سلسلے میں پنجاب میں 47 ہزار 473، سندھ میں 13 ہزار 405، خیبر پختونخوا میں 11 ہزار سے زائد جب کہ بلوچستان میں 4 ہزار 497 اور اسلام آباد میں 750 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔
اس بار انتخابات میں 7 لاکھ 35 ہزار سے زائد عملہ اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ عملے کا تعلق تعلیم، زراعت، خوراک، ریونیو اور دیگر اہم شعبوں سے ہے جب کہ الیکشن کمیشن نے پہلی بار پرائیویٹ بینکوں سے بھی عملہ فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔
ووٹرز کی مجموعی تعداد
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 407 ہے۔ ان میں 5 کروڑ 92 لاکھ 24 ہزار 262 مرد اور 4 کروڑ 67 لاکھ 31 ہزار 145خواتین شامل ہیں۔
پنجاب میں کل ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 6 لاکھ 72 ہزار 868 ہے جن میں مرد ووٹرز 3 کروڑ 36 لاکھ 79 ہزار 992 جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 69 لاکھ 92 ہزار 876 ہے۔
سندھ میں 2 کروڑ 23 لاکھ 91 ہزار 244 ووٹرز ہیں۔ جن میں سے ایک کروڑ 24 لاکھ 36 ہزار 844 مرد جب کہ 99 لاکھ 54 ہزار 400 خواتین شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ووٹرز کی کل تعداد ایک کروڑ 53 لاکھ 16 ہزار 299 ہے، جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 87 لاکھ 5 ہزار 831 جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 66 لاکھ 10 ہزار 468 ہے۔
بلوچستان میں مرد ووٹرز 24 لاکھ 86 ہزار 230 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 18 لاکھ 13 ہزار 264 ہے جو مجموعی طور پر 42 لاکھ 99 ہزار 494 بنتی ہے۔
فاٹا میں ووٹرز کی کل تعداد 25 لاکھ 10 ہزار 154 ہے جن میں مرد ووٹرز 15 لاکھ 7 ہزار 902 ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 2 ہزار 252 ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کل 7 لاکھ 65 ہزار 348 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں مرد 4 لاکھ 7 ہزار 463 جبکہ 3 لاکھ 57 ہزار 885 خواتین شامل ہیں۔
ملک بھر میں خواجہ سراؤں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے لیکن ان میں سے صرف 1056 خواجہ سرا بطور ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔
اس بار ملک بھر کے مختلف حلقوں سے کئی خواجہ سرا بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر امیدوار ہیں۔