رسائی کے لنکس

پاکستان میں ٹوئٹر پر بڑھتا ہوا مصنوعی سیاسی بیانیہ


پاکستان میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد تحقیق سامنے آئی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں آیندہ آنے والے عام انتخابات کے متعلق ٹوئٹر پر استعمال ہونے والے سیاسی ’ہیش ٹیگز‘ پر کی جانے والی زیادہ تر ٹویٹس کے ذریعے سیاسی بیانیہ دراصل خودکار طریقہ سے تشکیل دیا جا رہا ہے، جسے سائنسی زبان میں ’ہیومن بوٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

دنیا بھر میں یوں تو سوشل میڈیا کے اثرات اور اس پر ہونے والی بحث مباحثون کو مختلف طریقوں سے جانچا جاتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹوئٹر اور اس سے متعلق ’ہیش ٹیگز‘ وغیرہ کے ’انفومیٹکس‘ پر کام کم ہوا ہے۔

اسلام آباد میں قائم ایک نجی تنظیم ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ نے اس بار پاکستان کے عام انتخابات کی روشنی میں ٹوئٹر کو جانچنے اور اس پر استعمال ہونے والے سیاسی ہیش ٹیگز کو پرکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے، تاکہ پتا چل سکے کہ سوشل میڈیا پر بننے والا سیاسی بیانیہ دراصل کتنا حقیقت پر مبنی ہے۔

’ٹرینڈز مانیٹر‘ کی ابتدایی رپورٹ میں ایک ہفتے تک کے دورانیے میں کل 37 ہیش ٹیگز کو مانیٹر کیا گیا، جبکہ ان میں سے تین ہیش ٹیگز کا سائنسی تجزیہ کیا گیا۔

تجزیے کے مطابق، ’’پاکستان میں عام انتخابات 2018ء کی روشنی میں ٹوئٹر پر سیاسی ٹرینڈز، ہیش ٹیگز اور بحث و مباحثے کو خودکار طریقہٴ کار کے ذریعے ممکنہ ساز باز کرکے متاثر کیا جا رہا ہے‘‘۔

’ہیومن باٹس‘ یا ٹوئٹر پر خود کار طریقے سے ٹویٹس کرنے کے اس عمل کو سمجھاتے ہوئے، ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے ایگزیکٹیو ڈایریکٹر اور اس تحقیق پر مرکزی حیثیت میں کام کرنے والے اسد بیگ کہتے ہیں کہ ’’یہ دراصل ایسے مصنوعی اکاؤنٹس ہوتے ہیں جنہیں انسانوں کے ذریعے ہی چلایا جاتا ہے مگر ان اکاؤنٹس کا رویہ مشینی ہوتا ہے یعنی وہ ایک سافٹ وئیر کے طور پر کام کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہیں ’ہیومن باٹس‘ کا نما دیا گیا ہے‘‘۔

اسد بیگ کے مطابق، اس تحقیق کی ابتدائی رپورٹ کے لیے37 ہیش ٹیگز پر کی گئی قریباً آٹھ لاکھ ٹویٹس کو جانچا گیا۔

ان میں سے تین ہیش ٹیگز ’الیکشنز 2018ء’ ’بی بی کا وعدہ نبھانا ہے’ اور ’اب صرف عمران خان’ پر آنے والی ٹویٹس کا رواں سال جون کے آخری ہفتے میں سائنسی تجزیہ کیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ ان میں سے دو ہیش ٹیگز جو ’براہر است سیاسی پارٹیز‘ کے ساتھ منسلک ہیں یا ان کے بارے میں بات کر رہے ہیں ان ہیش ٹیگز پر یہ خود کار ایکٹیویٹی، 60 سے 70 فیصد تک ہے۔

اسی تنظیم کی ڈایریکٹر، صدف بیگ کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ رپورٹ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے مگر یہ با واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اب تک کیے گئے سائنسی تجزیے کے مطابق اکثریت ایسے ہیش ٹیگز کی نظر آ رہی ہے جن پر کی جانے والی ٹویٹس جس قسم کا سیاسی بیانیہ تشکیل دے رہی ہیں وہ مصنوعی طریقے سے بنایا جا رہا ہے۔

مصنوعی طریقے سے تشکیل دیے جانے والے اس بیانیے میں اسد بیگ کے مطابق قابل ذکر بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ ایسی ٹویٹیس سامنے آئیں جو کسی نہ کسی طرح تشدد کو ہوا دینے اور نفرت انگیز پیغامات سے بھری تھیں۔ اور ان میں مختلف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ محتلف صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

بقول اُن کے، ’’مجھے یہ لگتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت سیاسی جماعتوں اور ان کے باٹس کے درمیان ایک سائبر وارفئیر چل رہا ہے، ایک دوسرے پر حملہ کر رہا ہے دوسرا پہلے پر۔ اگر کسی صحافی کی رپورٹنگ پسند نہیں آ رہی تو سب مل کر اس صحافی پر حملہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح اگر عمران خان پر تنقید کرنی ہے تو ان کی اہلیہ کے بارے میں بات کرکے تنقید کی جاتی ہے؛ اسی طرح نواز شریف پر تنقید مریم نواز کے بارے میں ٹویٹس کرکے کی جا رہی ہے؛ تو یہ صنفی امتیاز ان ’ہیومن باٹس‘ کی ٹویٹس میں بہت عام ہے۔‘‘

اسد بیگ کہتے ہیں کہ ٹوئٹر پر موجود اس قسم کے نفرت انگیز مواد میں جب سیاسی پارٹیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اب تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ یہ سیاسی پارٹیاں اس قسم کے پیغامات سے لاتعلقی کا اظہار کریں یا ان کی مذمت کریں۔

اُن کے الفاظ میں،’’میں نے نہیں دیکھا کہ نواز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو، عمران خان یا کسی بھی اور سیاسی رہنما نے اس بات کی مذمت کی ہو کہ ہمارے نام سے جو پرتشدد ٹویٹس کی جا رہی ہیں ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘‘۔

بلکہ، ’’کسی نہ کسی سطح پر یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس قسم کے اکاؤنٹس اور لوگوں سے خود کو لاتعلق کریں۔ واضح طور پر ان کے اپنے نام سے کیے جانے والے ڈیجیٹل تشدد کی مذمت کی جانی چاہیے‘‘۔

اسد بیگ کے مطابق، ٹوئٹر کے ہیش ٹیگز کا تجزیہ کرنے کےلیے ان کی تنظیم نے یہ انڈیکس تشکیل دے دیا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی چاہے تو وہ اس تحقیق کی نقل تیار کر سکتا ہے اور ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کےکسی بھی ملک کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ نامی اس نجی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تحقیق سے یقیناً یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات کے بارے میں اس سال سوشل میڈیا پر جعلی خبریں یا غلط خبریں بڑی تعداد میں پھیلائی جا رہی ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ ’’یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی رائے متاثر ہونے کے خدشات کو دور کیا جانا بہت ضروری ہے‘‘۔

یاد رہے کہ پاکستان الیکشن کمیشن نے اگرچہ پاکستانی ٹی وی چینلز اور روایتی میڈیا کے لیے انتخابات پر رپورٹنگ کے حوالے سے ایک ضابطہٴ اخلاق جاری کیا ہے؛ تاہم، سوشل میڈیا پر اس ضابطہٴ اخلاق کا اطلاق نہیں ہوتا۔

مگر دوسری طرف، کچھ سیاستدانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر لگایے جانے والے الزامات پر، وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے کو شکایت بھی درج کروائی ہے۔

XS
SM
MD
LG