رسائی کے لنکس

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں تارکین وطن ووٹروں کی بڑھتی ہوئی اہمیت 


ڈیٹرائٹ میں ایک ڈسٹرکٹ جج کے سامنے شہریت حاصل کرنے والی ایک تارک وطن ہالہ باقر ڈرائیو تھرو میں اپنی کار پر حلف اٹھا رہی ہیں۔ 20 جون 2020
ڈیٹرائٹ میں ایک ڈسٹرکٹ جج کے سامنے شہریت حاصل کرنے والی ایک تارک وطن ہالہ باقر ڈرائیو تھرو میں اپنی کار پر حلف اٹھا رہی ہیں۔ 20 جون 2020

دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر امریکہ میں آباد ہونے والے تارکین وطن، جو اب امریکی شہریت اختیار کرچکے ہیں، 2020 کے صدارتی انتخاب میں ایک اہم ووٹنگ گروپ قرار دیئے جا رہے ہیں۔

اعدادو شمارکے مطابق، اس سال کے انتخابات میں امریکی شہریت اختیار کرنے والے دو کروڑ 30 لاکھ افراد ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔

تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کے مرتب کردہ اعداد و شمار، جو امریکہ کی مردم شماری کی روشنی میں ترتیب دیئے گئے ہیں، بتاتے ہیں کہ اس سال تارکین وطن ووٹروں کی تعداد امریکہ کے کل ووٹروں کا 10 فی صد ہو گی۔ حالیہ رجحانات کو اگر دیکھا جائے، تو نئے امریکی شہری جمہوری عمل میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ایل سیلواڈور سے تعلق رکھنے والی برینڈا سائین فیوگوس جو حال ہی میں امریکی شہری بنیں، ایسے ووٹروں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے بے تاب ہیں، کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ووٹ ان جیسے لاطینی امریکیوں کو ایک آواز دیتا ہے۔

برینڈا جو دو بچوں کی ماں ہیں، قانونی طور پر 2010 میں امریکہ آ کر آباد ہوئیں اور اس سال امریکی شہری بننے کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو ایک ووٹر کی حیثیت سے رجسٹر کرایا۔

امریکہ میں تمام سیاسی نظریات رکھنے والے گروپ، تارکین وطن ووٹروں کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ لنکن پراجیکٹ نامی منصوبے کے بانی مائیک میڈرڈ کہتے ہیں کہ اس بات کی توقع ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ووٹروں کے مقابلے میں تارکین وطن زیادہ شرح سے ووٹ ڈالیں گے۔

ری پبلکن قومی کمیٹی کے ہسپانوی ذرائع ابلاغ کے ڈائریکٹر یالی نیونیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ریپبلکن پارٹی امریکی شہریت اختیار کرنے والے تارکین وطن سمیت تمام شہریوں کے ساتھ مل کر کام کر نے کی اہمیت کو سمجھتی ہے کیونکہ تمام امریکی شہری ووٹر ہیں۔

پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق اس سال ووٹ کا حق استعمال کرنے کے اہل تارکین وطن شہریوں میں نئے لاطینی اور ایشیائی ووٹروں کا تناسب تقریباً دو تہائی ہے۔

2016 کے انتخابات میں 53 فی صدلاطینی اور 52 فی صد ایشیائی ووٹروں نے ووٹ ڈالے۔ جبکہ ان رجحانا ت کے مقابلے میں امریکہ میں پیدا ہونے والے لاطینی ووٹروں کی شرح 46 فی صد اور امریکہ میں پیدا ہونے والے ایشیائی ووٹرز کی شرح 25 فی صد رہی۔

ووٹ کا حق استعمال کرنے والے تارکین میں سب سے زیادہ تعداد بالترتیب میکسیکو، فلپائین، بھارت اور چین سے آئے تارکین وطن کی رہی۔

شمالی کیرولائنا میں قائم نیلیو نامی تعلیمی فنڈ سے منسلک جولیانا کیبرالیز کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو مستقل بنیادوں پر نئے امریکی شہریوں سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ صرف انتخابات کے موقعے پر۔

ان کے بقول دیکھنے میں آیا ہے کہ انتخابات سے پہلے کے سالوں میں سیاسی جماعتیں خود سے ہی ایسا سمجھتی ہیں کہ لاطینی برادری سے تعلق رکھنے والے ووٹر یا تو اس پارٹی کو ووٹ دیں گے یا دوسری پارٹی کو۔ لیکن ہماری تنظیم اس بات پر زور دیتی ہے کہ سیاسی جماعتیں لاطینی کمیونٹی سے میل ملاپ رکھیں اور بات چیت کریں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدارتی مہم کے اراکین ایسی ریاستوں میں، جہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہو، نئے امریکی شہریوں سے بات چیت کرتے ہیں، لیکن اس سے ہٹ کر نیویارک، کیلی فورنیا اور ٹیکساس جیسی ریاستوں میں لاطینی ووٹروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

فلپائن سے تعلق رکھنے والی اولیویا کوونٹو اس سال کے انتخابات کو امریکہ کے لیے بہت اہم سمجھتی ہیں۔ وہ اس سال کوویڈ 19 کے دوران امریکی شہری بنیں لیکن اس وبا کے باعث کوئی بھی عزیز یا دوست ان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔

کوونٹو اس سال اپنی والدہ کے ہمراہ تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالیں گی۔

انتخابات کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں یہ سوچ بہت اہم ہے کہ اس سال کے انتخابات کا تعلق ان معاملات سے ہے، جو ان کے عزیز ترین لوگوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔

XS
SM
MD
LG