رسائی کے لنکس

مقامی معیشت پر امیگریشن کے مثبت اثرات میں واشنگٹن سر فہرست


ایک امیگرنٹ فیملی کی واشنگٹن ڈی سی کے قریب ایئر پورٹ پر آمد۔ فائل فوٹو
ایک امیگرنٹ فیملی کی واشنگٹن ڈی سی کے قریب ایئر پورٹ پر آمد۔ فائل فوٹو

امیگرنٹس کی طرف سے روزگار پیدا کرنے والے کاروباروں کے لحاظ سے واشنگٹن امریکہ بھر میں پانچویں نمبر پر ہے جبکہ امیگرنٹ خاندانوں کی اوسط آمدنی کے حساب سے بھی واشنگٹن ملک بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔

امریکہ کے محکمہ مردم شماری کی طرف سے 2014 کے لئے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 4 کروڑ 24 لاکھ تارکین وطن آباد ہیں جن میں قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح کے امیگرنٹس شامل ہیں۔ یوں امیگرنٹس امریکہ کی کل آبادی کا 13.3 فیصد ہیں۔

عرصہ دراز سے امریکہ نے بیرونی ممالک سے مختلف طرح کی قابلیت کے حامل افراد کو یہاں آ کر آباد ہونے کی ترغیب دی ہے تاکہ وہ امریکی معیشت اور معاشرت میں فعال کردار ادا کریں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔

مختلف اوقات میں امیگریشن کو فروغ دینے کے لئے امریکی حکومتوں نے پالیسیاں وضع کیں۔ ان میں سے ایک ویزا لاٹری بھی ہے جس کے تحت ہر سال ان ملکوں سے تارکین وطن کو آنے کی اجازت دی گئی جن کی امریکی امیگرینٹس میں نمائندگی نسبتاً کم تھی۔ پاکستان اور بھارت کے لئے بھی ویزا لاٹری کا پروگرام کئی برس تک جاری رہا اور ان دونوں ملکوں سے بھی ہزاروں افراد قرعہ نکلنے کے بعد امریکہ آ بسے۔

واشنگٹن میں تارکین وطن امریکی شہریت کا حلف اٹھا رہے ہیں۔
واشنگٹن میں تارکین وطن امریکی شہریت کا حلف اٹھا رہے ہیں۔

ان تارکین وطن نے امریکہ آنے کے بعد نہ صرف یہاں کی مختلف یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنے لئے ایک مقام پیدا کیا۔ امیگرینٹس اب امریکی سیاست میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ امریکی تاریخ کے انتہائی ممتاز سیاست دان ایلبرٹ آئین سٹائن بھی ایک امیگرنٹ تھے جو بنیادی طور پر جرمنی سے تھے اور پھر اٹلی، سوٹزرلینڈ، آسٹریا اور بیلجیم سے ہوتے ہوئے بالآخر امریکہ آ کر آباد ہو گئے جہاں اُنہوں نے دیگر سائنسی تحقیق کے علاوہ تھیوری آف ریلی ٹیویٹی یعنی نظریہ اضافیت دریافت کیا۔

اُن کے علاوہ گوگل کے بانی سرگے برن روس سے، باسکٹ بال کے مشہور کھلاڑی موتمبو کانگو سے، میڈیا امپائر کے مالک ارب پتی روپرٹ مرڈوک آسٹریلیا سے، امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈم آلبرائیٹ چیکو سلواکیہ سے، واٹس ایپ کے بانی جان کوم یوکرین سے، یوٹیوب کے بانی سٹیو چن تائیوان سے اور اُن کے شریک بانی جاوید کریم مشرقی جرمنی سے ترک وطن کر کے امریکہ آئے تھے۔

پاکستانی نژاد شاہد خان اپنی فٹ بال ٹٰم کے ساتھ
پاکستانی نژاد شاہد خان اپنی فٹ بال ٹٰم کے ساتھ

پاکستان اور بھارت سے بھی بہت سے امیگرنٹس نے امریکی معاشرت میں بڑا نام پیدا کیا۔ ان میں ارب پتی بزنس مین شاہد خان بھی شامل ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے واحد شخص ہیں جو نیشنل فٹ بال کی ایک ٹیم جیکسن ول جیگوئرز کے مالک ہیں۔ ان کے علاوہ مائیکروسافٹ کی سربراہ ستیا ندالی اور ایڈوبی کے منتطم اعلیٰ شنتو نرائن کا تعلق بھارت سے ہے۔

اگرچہ امریکہ آ کر آباد ہونے والے امیگرنٹس تقریباً تمام ہی امریکی ریاستوں میں موجود ہیں، تاہم اعدادو شمار کے مطابق تارکین وطن کی سب سے زیادی تعداد کیلی فورنیا میں آباد ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ریاست نیو یارک ہے۔

پرسنل فنانس کی ویب سائٹ WalletHub نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے کن ریاستوں کو امیگریشن سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں ویب سائٹ نے 19 مختلف حوالوں سے جائزہ لیا ہے جن میں بیرون ملک پیدا ہونے والے امریکیوں کی اوسط خاندانی آمدنی اور امیگرنٹس کے زیر ملکیت کاروباروں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے روزگار کے مواقع شامل ہیں۔

امریکہ کا وفاقی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی بھی اُن علاقوں میں شامل ہے جہاں امیگرنٹس نے مقامی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امیگرنٹس کی طرف سے روزگار پیدا کرنے والے کاروباروں کے لحاظ سے واشنگٹن امریکہ بھر میں پانچویں نمبر پر ہے جبکہ امیگرنٹ خاندانوں کی اوسط آمدنی کے حساب سے بھی واشنگٹن ملک بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔

سائنس اور انجینئرنگ میں اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل امیگرنٹس افراد کے حوالے سے بھی واشنگٹن کا نمبر آٹھواں ہے۔ تاہم تین حوالوں سے واشنگٹن امریکہ بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ ان میں 25 سال سے زائد عمر کے ایسے افراد جو کم از کم امریکہ میں بیچلر ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی طلبا کے مقامی معیشت میں حصے کے حوالے سے بھی واشنگٹن سر فہرست ہے۔

اس جائزے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکی معیشت اور معاشرت میں امیگرنٹس نے توقع سے بہتر کردار ادا کیا ہے۔

ایلبنی لا ء اسکول کی پروفیسر سارا راجرسن نے ویب سائیٹ WalletHub کو بتایا ہے کہ امریکہ میں موجود تارکین وطن کی وجہ سے نہ صرف امریکی معیشت مضبوط ہوئی ہے بلکہ ایسے علاقوں میں جرائم کی شرح بھی بڑی حد تک کم ہو گئی ہے جہاں تارکین وطن کی زیادہ تعداد آباد ہے۔ نیویارک اسٹیٹ کمپٹرولر کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 میں شہر کی معیشت میں 257 ارب ڈالر کا کاروباری لین دین تارکین وطن کی وجہ سے ہوا جو شہر کی مجموعی معاشی حجم کے ایک تہائی کے برابر ہے۔

باسٹن یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کیرن پیٹا لور کہتی ہیں کہ تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد نہ صرف امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے بلکہ مختلف شعبوں میں قابل قدر خدمات انجام دے رہی ہے۔ بہت سے امیگرنٹ ایسے کام کرتے ہیں جن سے دوسرے امریکیوں کی زندگی میں آسانیاں اور سہولتیں پیدا ہوتی ہیں۔

امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ایک امیگرنٹ فیملی کی خوشی۔
امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ایک امیگرنٹ فیملی کی خوشی۔

پروفیسر کیرن کا کہنا ہے کہ بہت سے امیگرنٹ ایسی اہم خدمات انجام دیتے ہیں جو عام طور پر نظر میں نہیں آتیں۔ مثال کے طور پر زرعی شعبے میں تارکین وطن پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار بڑھانے میں اہم خدمات سر انجام دے رہے ہیں تاکہ اُن کی مانگ کو پورا کیا جا سکے۔ وہ بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر باغبانی تک ہر طرح کی خدمات انجام دیتے ہیں اور امریکی شہری اُن کی خدمات پر انحصار کرتے ہیں۔ یوں تارکین وطن ہماری معیشت میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے سال کے دوران امیگریشن کو محدود کرنے کے حوالے سے متعدد اقدامات اختیار کئے گئے ہیں جن میں بعض ممالک سے امریکہ کی سفری پابندیاں، بچپن میں قانونی یا غیر قانونی طریقے سے امریکہ آ کر آباد ہونے والوں کے پروگرام DAKA پر مجوزہ پابندی، متعدد چھوٹے کاروباروں پر غیر قانونی امیگرنٹس کی گرفتاری کے لئے چھاپے اور میکسیکو سے غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کیلئے سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے منصوبے خاص طور پر شامل ہیں۔

منگل کے روز اپنے سٹیٹ آف دی یونین ایڈریس میں صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ امیگریشن سے متعلق اُن کی نئی حکمت عملیوں سے امریکہ میں آباد امیگرنٹ کمیونٹی کو خاص طور پر فائدہ پہنچے گا کیونکہ یہ حکمت عملیاں امریکہ میں کام کرنے والوں اور اُن کے افراد خانہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کی جا رہی ہیں۔

صدر ٹرمپ اپنے سٹیٹ آف دی یونین ایڈریس میں اپنی پالیسی کے اہم نکات پیش کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ اپنے سٹیٹ آف دی یونین ایڈریس میں اپنی پالیسی کے اہم نکات پیش کر رہے ہیں۔

​صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ امیگریشن کے حوالے سے کانگریس میں چار نکات پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کر رہے ہیں جس کی منظوری کے بعد امیگریشن میں اصلاحات کی جائیں گی۔ صدر ٹرمپ کے منصوبے کے چار نقاط یہ ہیں:

پہلا نقطہ:

اُن 18 لاکھ افراد کو امریکی شہریت دینے کے سلسلے میں ضابطے کی کارروائی کی جائے گی جو کم عمری میں اپنے والدین کے ساتھ غیر قانونی طور پر امریکہ آئے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان میں سے وہ افراد جو تعلیمی قابلیت اور کام کرنے کے لئے مطلوبہ استعداد رکھتے ہیں اور جن کا عمومی کردار اچھا ہے، اُنہیں امریکی شہریت مل جائے گی۔

دوسرا نقطہ:

امریکہ میں جنوبی سرحد پر دیوار تعمیر کی جائے گی تاکہ میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکہ داخل ہونے والوں کو روکا جائے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس عمل کا مقصد خاص طور پر ایسے راستوں کا بند کرنا ہے جہاں سے مجرم اور منشیات کا کاروبار کرنے والے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں جرائم اور بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔

تیسرا نقطہ:

ویزا لاٹری کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا کیونکہ بقول اُن کے اس لاٹری کے ذریعے بغیر یہ جانے لوگوں کو گرین کارڈ تھما دیا جاتا تھا کہ وہ امریکی شہریت کی اہلیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر امیگریشن کا نظام اپنایا جائے گا۔

چوتھا نقطہ:

رشتوں سے منسلک امیگریشن کو بند کر دیا جائے گا جس کے ذریعے ایک امیگرنٹ اپنے بہت سے رشتہ داروں کو سپانسر کر سکتا تھا۔ نئے نظام کے تحت سپانسرشپ بیوی یا شوہر اور چھوٹے بچوں تک محدود کر دی جائے گی۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ نئے امیگریشن نظام کا مقصد امریکہ کو محفوظ بنانا اور ایسے افراد کو امریکہ آنے کی اجازت دینا ہے جو اپنی قابلیت، ہنر، تعلیم اور استعداد کی بنیاد پر امریکی معاشرت کیلئے سودمند ثابت ہوں۔

XS
SM
MD
LG