مصر کی آئینی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وزیر اعظم احمد شفیق اختتام ہفتہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے کے اہل ہیں، باوجودیکہ ایک قانونی ضابطہ حسنی مبارک حکومت کے عہدے داروں کو الیکشن لڑنے سے روکتا ہے۔ اپنے اسی حکم میں عدالت نے پارلیمنٹ کے ایک تہائی ارکان کی رکنیت ختم کردی ہے جس سے پارلیمانی تحلیل کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
مصر کی آئینی عدالت کے باہر موجود لوگوں میں اس فیصلے پر بڑی برہمی دیکھنے میں آئی جس کے تحت احمدشفیق انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اہل قرار پائے اور قانون سازوں کی ایک معقول تعداد ، جس میں اسلام پسندوں کی اکثریت ہے، اپنے نشستوں سے محروم ہوگئی ۔
بہت سے لوگوں نے عدالتی حکم کو ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا جس کا مقصد پرانے نظام کو برقرار رکھا تھا۔ کئی ایک نے اس فیصلے کو ایک نرم انقلاب کا نام دیا۔
ایک سرگرم سیاسی کارکن محمد عبداللہ کا کہناہے کہ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ ہر شخص اقتدار شفیق کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ ان کا مزید کہناتھا کہ شفیق کے ساتھ معاہدہ اصل میں نوزندگیاں رکھنے والی بلی جیسا ہے۔ وہ سابقہ عہد کو تحفظ فراہم کرنے والا شخص ہے۔
عدالت کا فیصلہ ، دوسرے مرحلے کے صدارتی انتخاب سے دو روز پہلے آیا ہے ۔ اس مرحلے میں شفیق ، اخوان المسلمین کے امیدوار محمد مورسی کے مدمقابل ہوں گے۔ جو کئی ایک کے لیے ناقابل قبول ہیں۔
احتجاج کرنے والے طالب علم عبداللہ محمود کا کہناہے کہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ مصر کے انقلاب کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں ہے۔ کوئی ایسا امیدوار نہیں ہے جو ملک کو بدعنوانی سے پاک کرسکے۔
کئی لوگوں کو اس فیصلے میں بھی بدعنوانی کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ عدالت کے ججوں میں سے ایک الیکشن کمشن کا بھی سربراہ ہے جس پر کئی مظاہرین برہم تھے۔ اور دوسری جانب موجود حکمران فوجی کونسل نے ایک روز قبل یہ کہاتھا کہ فوجی اہل کار، لوگوں کو حراست میں لے سکتے ہیں۔
عدالتی احاطے کے باہر موجود لوگوں کے ہجوم میں شامل کئی ایک کا کہناتھا کہ وہ شاہروں پر اپنے مظاہرے جاری رکھیں گے۔ انہی مظاہروں کے نتیجے میں پرانا حکومتی نظام زمین بوس ہواتھا۔
لیکن کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار رانیا المالکی کا کہناہے کہ کسی مؤثر احتجاج کا وقت اب گذر چکاہے۔
ان کا کہناہے کہ اب ہم انتخابی مرحلے سے گذررہے ہیں۔ لوگ ووٹ ڈالنے جارہے ہیں۔ وہ پرچی کے ذریعے یہ اظہار کرنے جارہے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور انجام کار اب کچھ بھی تبدیل نہیں ہونے جارہا۔
مظاہرے میں شریک طالب علم محمود کا کہناہے کہ ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والے ووٹر دونوں امیدواروں کو یہ پیغام دیں گے کہ ایک تیسری قوت بھی موجودہے۔
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اقتدار میں موجود افرا د مظاہرین کی آواز پر توجہ دیں گے، خاموش رہیں گے یا اس سے کوئی مختلف قدم اٹھائیں گے۔