رسائی کے لنکس

سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، کسی سے بیک ڈور رابطے نہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر


پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار (فائل فوٹو)
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار (فائل فوٹو)

ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے کوئی منظم ٹھکانے موجود نہیں ہیں۔ داعش سے متعلق ڈوزیئر اقوام متحدہ کو فراہم کریں گے۔

پیر کو راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں داعش کے ونگ کو سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ تاہم پاکستان میں داعش کا زیادہ وجود نہیں ہے، صرف نام استعمال کرکے خوف پھیلایا جا رہا ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان نے الزام عائد کیا کہ غیر ملکی قوتیں داعش کو پاکستان میں قدم جمانے کے لیے مدد کر رہی ہیں۔

ملک کی سیاسی صورتِ حال سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں فوجی ترجمان نے واضح کیا کہ فوج کے کسی سے کوئی بیک ڈور روابط نہیں ہیں۔ سیاسی معاملات میں فوج مداخلت نہیں کرتی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیانات پر تشویش اپنی جگہ ہے، جس نوعیت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی اور نہ ہی اسے ایسے معاملات میں گھسیٹنا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ لانگ مارچ کی راولپنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اگر مولانا فضل الرحمٰن راولپنڈی آتے ہیں تو انہیں چائے پانی پلائیں گے۔

پاک امریکہ تعلقات پر ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر زیادہ بات نہیں کروں گا یہ دفترخارجہ کی ڈومین ہے تاہم ملٹری ٹو ملٹری روابط میں ہماری سوچ مثبت ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف رواں ہفتے کوئٹہ جائیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف رواں ہفتے کوئٹہ جائیں گے۔

'آرمی چیف رواں ہفتہ بلوچستان جائیں گے'

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بلوچستان میں ایف سی کی استعداد کار کو بڑھایا گیا ہے اور گوادر میں اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم خطرے سے مکمل نہیں نکلے مگر حالات قابو میں ہیں۔ بلوچستان میں سیکیورٹی خطرات کے لیے ہم نے ایک ڈوزیئر پیش کیا تھا۔

حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ رواں ہفتے ہی کوئٹہ کا دورہ کریں گے۔

'ایران اور افغانستان سے متصل سرحدی باڑ آئندہ سال مکمل ہو جائے گی'

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 2611 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر 83 فی صد سے زائد کام مکمل کر لیا گیا جب کہ پاک ایران سرحد پر 37 فی صد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے. امید ہے اگلے ایک سال میں پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

سرحد پر باڑ فوج نے حکومت کے احکامات پر عوام کی سیکیورٹی کے لیے لگائی، اس باڑ کو لگانے میں پاک فوج کے جوانوں نے اپنا خون بہایا اور شہادتیں دیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ باڑ کو اکھاڑ سکے۔

'خونی انقلاب کی باتیں انتشار پھیلانے کی کوشش ہے'

صحافی نے سوال کیا کہ خونی انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں پاک فوج اسے کیسے دیکھتی ہے جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب میں کہا کہ انتشار پھیلانے کی کوششیں نئی نہیں ہیں. ایک دہائی سے انتشار پھیلانے کی باتوں میں تیزی آئی ہے.

اُن کے بقول پاکستان کے دشمن ہمیشہ سے ایسی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن پاکستانی قوم نے کبھی اس انتشار کی کوششوں کو آگے جانے نہیں دیا۔ یہ تمام کوششیں جہاں سے بھی ہو رہی ہیں یہ کسی مقام پرنہیں پہنچ سکیں گی۔

بابر افتحار کے بقول اگر مولانا فضل الرحمٰن راولپنڈی آئے تو اُنہیں چائے پانی پلائیں گے۔
بابر افتحار کے بقول اگر مولانا فضل الرحمٰن راولپنڈی آئے تو اُنہیں چائے پانی پلائیں گے۔

'خودکش حملوں میں 97 فی صد کمی آئی ہے'

ملک کی اندرونی صورتِ حال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 20 سالوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی اور 18 ہزار سے زائد دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا۔ اس دوران 1200 سے زائد آپریشن کے ذریعے ہر قسم کی دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی کی کوششوں سے خودکش حملوں میں 97 فی صد واضح کمی آئی، جس کے بعد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 45 فی صد کمی آئی۔ 2013 میں دہشت گردی کے 213 واقعات ہوئے جب کہ 2020 میں 98 واقعات ہوئے۔

کراچی میں اغوا برائے تاوان کے واقعات میں 98 اور دہشت گردی میں 95 فی صد کمی آئی، 2014 میں کراچی کرائم انڈیکس میں چھٹے نمبر پر تھا اور اب 103 نمبر پر ہے۔

'بھارتی ڈس انفو لیب نے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا'

بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ڈس انفو لیب کی 15 سالہ کارروائی کا جائزہ لیا جائے تو اس سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔ ای یو ڈس انفولیب کو جعلی شری واستو گروپ چلا رہا تھا۔ بھارت کی نیوز ایجنسی اے این آئی کے ذریعے ان خبروں کو وائرل کیا جاتا تھا۔ ان ویب سائٹس کے ذریعے اقلیتوں اور خواتین سے متعلق جھوٹ پھیلایا گیا، ڈس انفولیب کے ذریعے پاکستان مخالف ایجنڈے کو فروغ دیا گیا۔

XS
SM
MD
LG