پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 16 دسمبر 1971 کو سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جب ملک کا ایک حصہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ تاہم اب بھی پاکستان میں چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان کے قوم پرست سیاست دان اپنی محرومیوں اور حق تلفیوں پر آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔
گو کہ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ 1971 میں بھارت نے سازش کر کے پاکستان کو دو لخت کیا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی بعض ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی پایا جاتا تھا جس کا نتیجہ 16 دسمبر کو بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا۔
اس معاملے پر کئی مؤرخین، مصنفین اور سیاست دانوں نے کتابیں لکھیں اور اس واقعے کے محرکات پر بھی سیر حاصل بحث ہوتی رہی ہے۔ تاہم پاکستان کے سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ ماضی کو بھول کر ریاستِ پاکستان کو اپنی ان پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے جس کی وجہ سے آج بھی ملک کے چھوٹے صوبوں میں مشرقی پاکستان کی طرح احساسِ محرومی بڑھتا جا رہا ہے۔
حال ہی میں پشتونخوا عوامی ملی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی نے 13 دسمبر کو لاہور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے سے خطاب کیا۔ ان کے خطاب میں پنجاب سے متعلق کی جانے والی کئی باتوں پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ لیکن انہوں نے اسی خطاب میں یہ بھی کہا کہ صدر ایوب خان نے سابقہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے 'ون یونٹ' بنا دیا تھا۔ لیکن ان کے خیال میں ملک میں اب ایسی چالاکی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی جلسے کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں نئے بنگلہ دیش کے قیام کو روکیں اور اس مقصد کے لیے فوج کو اپنے آئینی کردار تک محدود رکھنے کی جدوجہد کریں۔
بنگلہ دیش کے قیام کی اصل وجہ فوجی آپریشن تھا یا سیاسی غلطیاں یا مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ان کے جائز آئینی اور قانونی حقوق نہ دینا ایک وجہ تھی؟
بنگلہ دیش کیوں بنا؟ کس نے کیا غلطی کی؟ اس کی تحقیقات کے لیے حکومتِ پاکستان نے جسٹس حمود الرحمٰن کو ان وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس رپورٹ کے کچھ مندرجات تو منظرِ عام پر آتے رہے ہیں لیکن کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس رپورٹ کو عام نہیں کیا گیا۔
'اقتدار کی رسہ کشی اصل مسئلہ ہے'
سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان 1971 میں ایک افریقی ملک میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھے۔ وہ اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے کہ آج پاکستان میں 1971 جیسے حالات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آج کے حالات کا تقابل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حالات سے کیا جائے۔
شمشاد احمد خان کے بقول مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی اصل مسئلہ نہیں بلکہ وہاں کے حالات ہی بالکل مختلف تھے۔
ان کے خیال میں بنگلہ دیش کے قیام کی اصل وجہ عوامی رائے کا احترام اور اسے تسلیم نہ کرنا تھا۔
اُن کے بقول 1970 میں ہونے والے عام انتخابات میں شیخ مجیب کی جماعت عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم کر لیا جاتا تو حالات خراب نہ ہوتے۔
شمشاد احمد خان کے بقول عوامی لیگ کو اپنے چھ نکاتی ایجنڈے کی وجہ سے پذیرائی ملی۔ الیکشن کے نتائج کا احترام کرتے ہوئے اس جماعت کو اقتدار دے دینا چاہیے تھا۔
ان کے خیال میں فوج یا فوجی آپریشن کو موردِ الزام ٹھیرانا غلط ہے، اصل مسئلہ اقتدار کا حصول تھا جس کی وجہ سے ایک سیاسی بحران نے جنم لیا تھا۔
ان کے بقول پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اس سیاسی بحران کے اصل ذمہ دار تھے۔ کیوں کہ انہوں نے محض مغربی پاکستان میں ملنے والی اکثریت کی بنا پر مجیب الرحمان کی برتری تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی بنگلہ دیش کے قیام کی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالنے کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
شمشاد احمد خان کے بقول ذوالفقار علی بھٹو خود کو اقتدار میں شراکت داری کا اہل سمجھتے تھے۔ پھر اسی بنا پر بھٹو نے ایک ہی ملک میں دو وزرائے اعظم کا شوشہ چھوڑا اور حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
شمشاد احمد خان کے مطابق اس صورتِ حال میں بھارت کو مداخلت کا بہترین موقع مل گیا اور بھارت نے فوجی مداخلت کر کے ملک کو توڑا۔
سابق سیکریٹری خارجہ کے بقول اس پسِ منظر کے ساتھ یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ کچھ اور عوامل تھے جس کی وجہ سے سقوطِ مشرقی پاکستان ہوا۔
شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی دیگر وجوہات میں بنگلہ زبان کو شروع میں قومی زبان تسلیم نہ کرنا، جغرافیائی طور پر مغربی پاکستان سے دوری اور وہاں بھارتی عمل دخل زیادہ ہونا تھا۔
اُن کے بقول لوگوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کی گئی۔ بھارت نے طے کر رکھا تھا کہ پاکستان کو دو لخت کرنا ہے۔
لیکن شمشاد احمد خان کے مطابق ایسے حالات ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے بلوچستان میں پیدا ہوتے کہیں نظر نہیں آتے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان پاکستان کے ساتھ جغرافیائی طور پر منسلک ہے اور پاکستان کے پاس ایک بہت ہی بااثر فوج ہے۔ ایسے میں ان کے خیال میں احساسِ محرومی کی گفتگو کرنے والے سیاست دان درحقیقت اپنے مفادات کے حصول کے لیے یہ راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔
ان کے مطابق چین پاکستان معاشی راہداری (سی پیک) سے بلوچستان کو کافی فائدہ ملے گا جس سے وہاں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔
'ہم نے غلطیوں سے پوری طرح سبق نہیں سیکھا'
پاکستان کی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر تعینات رہنے والے اور سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر بھی اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ احساسِ محرومی اور حقوق کی عدم فراہمی سے متعلق بہت سے گروہ ایسے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔
اُن کے بقول اس طرح کی آوازیں بلوچستان کے ساتھ جنوبی پنجاب سے بھی سنائی دیتی ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں بلوچستان سمیت ملک کے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز بھی مختص کیے گئے ہیں اور وہاں ترقیاتی کاموں کی رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ احساسِ محرومی کی شکایات پہلے کے مقابلے میں کم ہوئی ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر کے بقول اس وقت معیشت کو کرونا وبا کی وجہ سے درپیش حالات اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ پریشانی کا شکار ضرور ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں احساسِ محرومی کی باتیں اب کم ہو رہی ہیں۔
معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی، امن و امان کی بحالی کے باعث سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ملک میں سن 71 جیسے حالات ہوں۔ تاہم ان کے خیال میں پاکستان نے بطورِ قوم ان سیاسی غلطیوں سے پوری طرح سبق نہیں سیکھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بھی ملک گیر جماعتیں نہیں تھیں اور اب بھی یہی حالات ہیں۔ اس وقت عوامی لیگ مشرقی پاکستان جب کہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں مغربی پاکستان تک محدود تھیں۔
اُن کے بقول آج بھی پیپلز پارٹی سندھ، مسلم لیگ (ن) پنجاب تک محدود ہیں۔ ملک گیر جماعتیں ملکی استحکام کا باعث بنتی ہیں لیکن پاکستان میں تاحال ایسی کوئی جماعت نہیں ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر کے بقول خوش قسمتی سے ملک میں بہت سے سیاسی مسائل اب فوجی طاقت کے ذریعے حل نہیں ہو رہے بلکہ اس کے سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیکن ان کے خیال میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے وزیرِ اعظم کو پارلیمان کو اہمیت دے کر وہاں جانا چاہیے۔ پالیسی معاملات پر وہاں بحث ہونی چاہیے۔
1970 میں پاکستان کی قومی ایئر لائنز پی آئی اے کے ڈھاکہ دفتر میں تعینات کمرشل افسر شعاع النبی ایڈووکیٹ بھی سقوطِ مشرقی پاکستان کے کئی واقعات کے گواہ ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل، استاد اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے شعاع النبی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام کی اصل وجہ انتخابی عمل کا احترام نہ کرنا تھا۔
ان کے بقول شیخ مجیب الرحمان کو اکثریت ملنے پر اقتدار دینے سے ملکی سالمیت کو کوئی خطرہ درپیش نہ ہوتا۔ لیکن ان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ نے شیخ مجیب پر بھروسہ نہیں کیا اور انہیں اقتدار دینے سے گریز کیا۔
ان کے خیال میں اب بھی یہی ہو رہا ہے کہ کچھ 'عقل مند لوگ' سمجھتے ہیں کہ ہم جن لوگوں کو آگے لائیں گے وہی ملک کو بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔ حالانکہ ان کے ایسے منصوبے ماضی میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔
شعاع النبی ایڈووکیٹ کے بقول ہمیں یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ پاکستان سیاسی عمل کے تحت وجود میں آیا تھا اور اس کی بقا بھی سیاسی عمل کو جاری رکھنے ہی میں پوشیدہ ہے۔ اور پھر دوسرا پارلیمانی نظام بھی اس ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
شعاع النبی ایڈووکیٹ کے خیال میں بنگلہ دیش کے قیام میں احساسِ محرومی کے جذبات کو جان بوجھ کر ابھارا گیا۔
ان کے مطابق اگرچہ شروع میں بنگلہ کو سرکاری زبان تسلیم نہیں کیا گیا تاہم بعد ازاں اسے تسلیم کر کے غلطی کا ازالہ کیا گیا۔ لیکن کرنسی نوٹ سمیت سرکاری دستاویزات میں بنگالی ثقافت کو وہ جگہ نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق تھی۔
لیکن ان کے خیال میں مسئلہ ایک خاص ذہنیت کا تھا جس نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو زیادہ عرصے قومی سطح پر چلنے ہی نہ دیا۔
اُن کے بقول مولوی فضل الحق جنہوں نے قراردادِ پاکستان پیش کی تھی، انہیں غدار قرار دے دیا گیا۔
"وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی کی بھی چھٹی کردی گئی۔ محمد علی بوگرہ کو بھی عہدے پر زیادہ عرصے نہ رہنے دیا گیا اور تو اور خواجہ ناظم الدین جو محمد علی جناح کے انتقال کے بعد دوسرے گورنر جنرل کے عہدے پر فائز کیے گئے انہیں بھی گھر بھیج دیا گیا۔"
تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ گو کہ پاکستان میں 1971 جیسے حالات نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی ملک کے بعض حصوں میں پائی جانی والی بے چینی اور محرومی کا شکار علاقوں کے تحفظات کا ازالہ کر کے ہی مستقبل میں مزید ایسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔