آئی ٹی فرم ’ایگزیکٹ‘کی انتظامیہ کے تحت حال ہی میں اپنی ٹیسٹ ٹرانسمیشن شروع کرنے والا نجی ٹی وی چینل ’بول‘ ان دنوں مشکل حالات سے گز رہا ہے۔ لیکن، اس سے وابستہ 2000 سے زیادہ ملازمین کے حوصلے اب بھی بہت بلند ہیں۔ وہ پُرامید ہیں کہ یکم رمضان سے ’بول‘ کی باقاعدہ نشریات شروع ہوجائیں گی۔ آزمائشی نشریات کے وقت ہی اس تاریخ کا اعلان کردیا گیا تھا۔
ایک ماہ تین دن پہلے ’بول‘ سے وابستہ ہونے والے، زاہد حسین نے ’وی او اے‘ سے بات چیت میں بتایا کہ ’بول‘ سے پہلے وہ ’اب تک‘ ٹی وی میں تھے۔ مہینہ پورا ہونے میں صرف تین دن قبل، اُنھوں نے نئے چینل میں شمولیت اختیار کی۔
اُنھوں نے بتایا کہ وہ تین دن کی تنخواہ لے چکے ہیں۔ لیکن، ’اب تک‘ کی تنخواہ قواعد کے مطابق استعفے کے کچھ دنوں بعد ملنا تھی۔ تاہم، بول سے تنخواہ ملنے سے پہلے ہی حالات نامواقف ہوگئے۔ اس طرح، دو ماہ کی تنخواہ کا ہیرپھیر ہوگیا۔ گو کہ پچھلے ادارے والوں نے انھیں دوبارہ بلایا ہے، لیکن، ’میں یہیں رہ کر حالات کا سامنا کروں گا۔‘
گو کہ زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ چونکہ’ایگزیکٹ‘ ہی ’بول‘ کا مالی ذریعہ تھا، اس لئے اسے سخت مالی مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔ لیکن، اس بات نے بھی’بول‘میں کام کرنے والوں کے حوصلے پست نہیں کئے۔ وہ اب بھی معمول کے مطابق دفتر جاتے ہیں۔ باہر رہ کر وقت گزارتے ہیں، احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں اور ادارے کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ لیکن، اپنے ارادوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
ملازمین کی جانب سے پچھلے کئی دنوں سے کراچی پریس کلب پر احتجاج کیا جاتا رہا ہے، اور منگل کو بھی انہوں نے ڈیفنس میں واقع اپنے دفتر کے سامنے احتجاج کیا۔
احتجاج میں حصہ لینے والے ملازمین کو دیگر اداروں سے وابستہ سینئر صحافیوں، ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا ساتھ بھی حاصل ہے، جن کا کہنا ہے کہ اگر چینل شروع نہ ہوا تو بڑے پیمانے پر صحافی تو بے روزگار ہوں گے ہی، متوازن، غیر جانبدار اور بامقصد صحافتی اداروں کی راہ میں بھی کئی رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی۔
ملک بھر کے صحافیوں اور متعدد صحافتی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ’ایگزیکٹ‘ کے جرم کی سزا ’بول‘ کو نہ دی جائے۔ بول سے وابستہ عملے اور صحافیوں سمیت متعدد تنظیموں نے اپنے مطالبات کے حق میں کراچی کے علاوہ دیگر تمام بڑے شہروں میں بھی مظاہرے جاری رکھے ہیں۔
کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں شریک ’بول‘ ٹی وی کے سینئر نائب صدر، عامر ضیا نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملازمین اور صحافتی تنظیموں کا ’ون پوائنٹ ایجنڈا‘ ہے؛ اور وہ یہ ہے کہ ایسے صحافتی ادارے تشکیل پائیں جو با مقصد ہوں، جن کی رپورٹنگ متوازن اور شفاف ہو۔ اس کے لئے ’بول‘ کو لازماً شروع کرنا ہوگا۔۔ اور ہمیں کو اس کی ابتدا کرنا ہوگی۔‘
عامر ضیا نے کہا ہے کہ ’اداروں کی راہ میں مصنوعی رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں، جبکہ مختلف حربے بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ کیبل آپریٹرز کو کہا جارہا ہے کہ’ بول‘ کو ہک نہ کریں۔ پیمرا ہماری نشریات پر پابندی لگا رہا ہے۔ اگر حالات کو ہمارے خلاف استعمال کیا گیا تو مجبوراً ہمیں انٹرنیٹ کا سہارا لینا ہوگا۔ ہم انٹرنیٹ پر بول کی نشریات جاری رکھیں گے۔ لیکن، حوصلہ پست نہیں ہونے دیں گے۔‘
چینل کے زیر استعمال آنے والی مشینری سے متعلق کئے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی چیز غیر قانونی نہیں۔ ساری چیزیں ٹیکس ادا کرکے خریدی گئی ہیں۔ مہلت دی جائے تو اس کی رسیدیں بھی ان کو پیش کریں گے۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ 2300 کارکنوں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جائے۔ بے روزگار ی کو فروغ دینے والے اقدامات سے ساری صحافی برداری نالاں ہے۔‘
صحافیوں کا مظاہرہ کراچی تک ہی محدود نہیں بلکہ کوئٹہ، لاہور، پشاور، اسلام آباد اور ملتان میں بھی مظاہرے ہوچکے ہیں۔ بقول عامر ضیا، ’یہ تحریک صرف بول کی نہیں۔۔ تمام صحافیوں کے حقوق کی تحریک ہے۔‘
مظاہرے کے شرکاء سب سے زیادہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ملک میں نئے ادارے قائم ہوتے رہنے چاہئیں۔ اداروں کی مضبوطی جمہوریت کی مضبوطی ہے۔ پی ایف یو جے کے سکریٹری جنرل، امین یوسف کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اگر چینل شروع نہ ہوا تو اس کا سب سے بڑا نقصان صحافیوں اور دیگر عملے کو تو پہنچے گا ہی، معاشرے کے مختلف ادارے بھی کمزور ہوں گے۔
اُن کے الفاظ میں: ’ہم سمجھتے ہیں کہ ادارے بننے چاہئیں۔ ادارے بنیں گے تو صحافی مضبوط ہوگا۔ صحافی مضبوط ہوگا تو اس ملک کی صحافت مضبوط ہوگی اور صحافت مضبوط ہوگی تو جمہوریت مضبوط ہوگی۔یہ ہمارا ایمان ہے۔ نئے ادارے آنے سے پرانے ادارے بھی ان کے مقابلے پر آتے ہیں اور ان میں بھی مقابلے کا مثبت رجحان پیدا ہوتا ہے۔اس سے پرانے اداروں کے ملازمین کی آمدنی پر بھی مثبت فرق پڑتا ہے۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘
مظاہرین کے نزدیک نئے اداروں کے قیام کی جنگ، آزادی صحافت کی جنگ کا دوسرا نام ہے۔ بول ٹی وی کے پروڈیوسر، عثمان غنی کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ جنگ جیت گئے تو یہ میڈیا کے لئے ایک انقلاب ہوگا۔
ان شرکاء کی رائے کے برعکس ملک کے ایک اور سینئر صحافی، مجاہد بریلو ی کا کہنا ہے کہ اگر ایک مالک کا بہت بڑا کاروبار مشکوک ٹھہرا دیا جائے، تو اس سے وابستہ دوسرا ادارہ بھی مشکوک ہی کہلائے گا۔ اس اسکینڈل نے پاکستانی میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘
لیکن، مجاہد بریلوی صحافیوں کے مستقبل اور ان کے روزگار کے حوالے سے درپیش مسائل کا فوری حل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’ملازمین کے مستقبل کے حوالے سے فوری پالیسی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ کم از کم وہ لوگ جن کی تنخواہیں کم ہیں ان کو اس پالیسی میں ترجیح دینی چاہئے؛ کیوں کہ روزگار کا مسئلہ صرف نعرے بازی، تقریروں یا صرف مظاہروں سے ختم نہیں ہوگا۔‘