گزشتہ سال طے کیے گئے دوسرے منسک جنگ بندی معاہدے کے بعد ایک سال کے دوران 400 سے زائد یوکرینی فوجی لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جس میں ہونے والے تشدد میں روس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں وزارت دفاع میں یوکرین، روس اور یوریشیا سے متعلق اسسٹنٹ سیکرٹری مائیکل کارپینٹر نے کہا کہ مشرقی یوکرین میں جنگ میں شدت دیکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے باوجود یوکرین کی مسلح افواج کو علیحدگی پسندوں سے جنگ کے دوران 430 فوجیوں کی ہلاکت کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
’’روس کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ کمانڈ اینڈ کنٹرول سے متعلق رابطے ہیں جن کی وہ مشرقی یوکرین میں حمایت کر رہا ہے۔‘‘
روس مشرقی یوکرین کے دونباس علاقے میں بھاری اسلحہ بھیج رہا ہے اور ساتھ ہی ’’مشرقی یوکرین کے اندر فوجیوں کی موجودگی کے ساتھ‘‘ علیحدگی پسندوں کی تربیت اور انہیں کنٹرول کر رہا ہے۔
مائیکل کارپینٹر نے کہا کہ ’’روس اس مسئلے کا ذمہ دار ہے۔‘‘
روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے گزشتہ ہفتے مشرقی یوکرین میں سیکڑوں حملے کیے ہیں۔
امریکہ کی یورپی کمانڈ کے سربراہ جنرل فلپ بریڈلو نے منگل کو سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی سے گفتگو میں کہا تھا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 71 حملے ہوئے ہیں جبکہ اس سے سات دن قبل 450 حملے کیے گئے۔
جنرل فلپ بریڈلو جو نیٹو کے اہم فوجی کمانڈر بھی ہیں، نے پینٹاگان میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’پریشان کن رجحانات‘‘ جنم لے رہے ہیں اور ان جگہوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں جہاں اس سے قبل خاموشی تھی اور ایسے ہتھیار بھی استعمال ہو رہے ہیں جن پر پابندی ہے۔
ان رجحانات اور جنرل فلپ بریڈلو کی طرف سے یوکرین کی فورسز کو مہلک ہتھیار فراہم کرنے کی سفارش کے باوجود اوباما انتظامیہ نے ایسے ہتھیاروں کی فراہمی کو یوکرین کی امداد میں شامل نہیں کیا جس پر کچھ ریپبلکن رہنماؤں نے تنقید کی ہے۔
یوکرین میں تشدد میں ایسے وقت اضافہ ہوا ہے جب حکام نے متنبہ کیا ہے کہ روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔