رسائی کے لنکس

بغیر دستاویزات کے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو ملک بدر نہ کرنے کا مطالبہ


امید احمدی کا تعلق افغانستان کے جنوبی صوبہ ہرات سے ہے۔ وہ افغانستان میں انسانی حقوق کے مسائل جیسا کہ کم عمری کی شادی، لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار جیسے مسائل پر کام کرتے تھے۔

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت پاکستان منتقل ہوئے اور اب وہ راولپنڈی میں مقیم ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں وہ انسانی حقوق کے معاملات کو اُجاگر کرنے کے لیے یورپی یونین کے ایک پروگرام میں معاونت کرتے تھے۔

اُن کے بقول اس کی پاداش میں طالبان نے اُنہیں تین مرتبہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اب جب کہ پاکستانی حکومت نے افغان باشندوں کو ملک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تو انہیں خدشہ ہے کہ واپسی پر انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان نے سفری دستاویزات نہ رکھنے یا ویزے کی میعاد ختم ہونے والے افغان شہریوں کو ڈیڈ لائن دی تھی کہ وہ 31 دسمبر 2022 تک پاکستان چھوڑ دیں۔

لیکن پاکستان میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے پر نظرِ ثانی کی جائے۔

امید احمدی کے مطابق پاکستان میں بھی وہ متعدد مسائل کا شکار ہیں۔

'جن افغان باشندوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے، انہیں واپس نہ بھیجا جائے'

پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن عمر اعجاز گیلانی نے پاکستان کے قومی ادارہ برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) سے ان مہاجرین کو ملک بدر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

عمر اعجاز گیلانی کا کہنا ہے کہ وہ افغان مہاجرین جنہوں نے پاکستان میں پناہ کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کو درخواستیں دے رکھی ہیں انہیں جبراً افغانستان بھیجنے یا انہیں حراست میں رکھنے سے روکا جائے۔

ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی نے بالخصوص ایسے افغان باشندوں کو ملک بدر نہ کرنے کی اپیل کی ہے جن کی زندگیوں کو افغانستان میں خطرات لاحق ہیں۔

طالبان کے سبب دو بار افغانستان چھوڑنے والوں کی داستان
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:38 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمر اعجاز گیلانی کا کہنا تھا کہ این سی ایچ آر انسانی حقوق سے متعلق عالمی قوانین پر عمل درآمد کا پابند ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی جان بچا کر کسی دوسرے ملک میں پناہ لیتا ہے تو یہ اس کا حق ہے جس سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ یو این ایچ سی آر کی جانب سے ڈیڑھ برس گزر جانے کے باوجود پاکستان میں مقیم افراد کو تاحال بنیادی حق، پناہ گزین کا سرٹیفکیٹ نہیں ملا اور نہ ہی ان کے ویزے کی میعاد بڑھائی جا رہی ہے جس کے باعث وہ بغیر دستاویزات کے رہنے پر مجبور ہیں۔

عمر اعجاز گیلانی کی جانب سے یہ پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق میں پٹیشن ایک ایسے وقت میں دائر کی گئی ہے جب حالیہ دنوں کراچی کی مختلف جیلوں میں افغان پناہ گزینوں کی سلاخوں کے پیچھے تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔

وائس آف امریکہ نے قومی ادارہ برائے انسانی حقوق سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم متعلقہ افراد سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

خیال رہے کہ پاکستانی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان شہریوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن کی دیکھ بھال پہلے سے ہی مالی مشکلات سے دوچار پاکستان کے لیے مشکل ہے۔

پاکستانی حکام کہتے رہے ہیں کہ افغان جنگ کے دوران لاکھوں افغان باشندے پہلے سے ہی پاکستان میں موجود ہیں، لہذٰا غیر قانونی طور پر پاکستان آنے والے افغان شہریوں کو اُن کے وطن واپس بھجوا دیا جائے گا۔

'این سی ایچ آر کے پاس پالیسی بنانے کا اختیار نہیں ہے'

این سی ایچ آر کے سابق سربراہ جسٹس (ر) علی نواز چوہان کہتے ہیں کہ این سی ایچ آر کے پاس قومی سطح پر پالیسی مرتب کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان ہی ملکوں کے شہریوں کے حوالے سے شرائط متعین کرتی ہے، لہذٰا این سی ایچ آر اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

اُن کے بقول ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر اگر ریاست اُن غیر ملکی شہریوں کوجن کے پاس مطلوبہ دستاویزات نہیں ہیں، ملک چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے تو یہ کوئی غیر قانونی اقدام نہیں ہے۔

البتہ اُن کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جن کی جان کو واقعی اُن کے اپنے ملک میں خطرہ ہو تو پھر انفرادی سطح پر اس معاملے کو دیکھا جا سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی کا کہنا تھا کہ افغانستان انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے اب محفوظ نہیں رہا، کیوں کہ ان کی ماضی کی سرگرمیوں کو نئی حکومت کے نظریات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے ترجمان، قیصر خان آفریدی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام بے گھر ہونے والے افغان شہریوں کو پناہ اور تحفظ فراہم کرنے کی دہائیوں پرانی تاریخ رکھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے قیصر خان آفریدی نے واضح کیا کہ یو این ایچ سی آر پاکستان سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ پناہ کے خواہاں افراد کا تحفظ کریں۔

XS
SM
MD
LG