امریکہ نے اپنے اس الزام کی ایک بار پھر سختی سے ترديد کی ہے کہ جنگ زدہ ملک افغانستان میں داعش کے نام سے ابھرنے والے نئے دہشت گرد گروپ کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے، جن میں سابق افغان صدر حامد کرزئی اور روس بھی شامل ہیں حالیہ مہینوں میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اسلامک سٹیٹ کی مدد کر رہا ہے۔
کابل میں افغانستان کے لیے امریکی سفیر جان باس نے امریکی موقف دوہراتے ہوئے کہا ہے کہ میں یہ بات زور دے کر کہتا ہوں کہ داعش کو امریکہ افغانستان میں نہیں لایا۔ امریکہ نے کبھی بھی داعش کی تخلیق، اسے بنانے یا اس کے ہولناک حملوں کی حمایت نہیں کی۔
انہوں نے ان خيالات کا اظہار کابل میں اپنی پہلی نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔
پچھلے سال حامد کرزئی نے کئی میڈیا گروپس کے ساتھ اپنے انٹرویوز میں جن میں وائس آف امریکہ بھی شامل ہے، یہ کہا تھا کہ امریکہ داعش کو اپنے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے یہی بات جمعرات کے روز بھارت کہی کہ امریکہ کو افغانستان میں داعش اور انتہا پسندی کے ابھرنے کی وضاحت کرنا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے کچھ مسائل کا تعلق بیرونی ملکوں سے ہے۔ انتہاپسندی امریکہ اور پاکستان کے تعاون کی پیداوار ہے اور افغانستان کو اس کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ کرزئی نے نئی دہلی میں ایک کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکہ کو اس کی لازماً وضاحت کرنا ہو گی۔
امریکہ سفیر باس نے کہا ہے افغانستان میں داعش کے ساتھ مفاہمت یا امن کے لیے کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے ساتھ نمٹنے کا واحد راستہ میدان جنگ ہی ہے کہ یا تو انہیں ہلاک کر دیا جائے یا پھر انہیں پکڑ لیا جائے۔
داعش افغانستان میں صوبہ خراسان کے نام سے کام کر رہا ہے۔ اس گروپ نے 2015 میں ملک کے مشرقی علاقوں، خاص طور پر پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع صوبے ننگرہار سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
بعد ازاں اس گروپ نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ ملک کے دوسرے حصوں تک بڑھا دیا جس میں وسطی ایشیائی ریاستوں کی سرحد سے منسلک افغانستان کے شمالی علاقے شامل ہیں، جس سے روس کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
داعش نے حالیہ کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے جن کا زیادہ تر ہدف شیعہ کمیونٹی کے افراد بنے۔
امریکی فوجی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کا ایک بڑا حصہ سابق پاکستانی طالبان پر مشتمل ہے۔
پاکستان کا الزام ہے کہ اس کے ملک پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ان دہشت گردوں کا ہاتھ ہے جن کے ٹھکانے افغان سرحد کے اندر ہیں۔ جب کہ افغانستان کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں حملوں کے لیے داعش کو پاکستان سے مدد ملتی ہے۔