رسائی کے لنکس

فورسز سے مبینہ مقابلہ، وسیم تابش شاعر یا بلوچ عسکریت پسند؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’میرے بیٹے کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے جبری گمشدہ لوگوں کے لیے مقامی زبان میں دو شعر لکھے تھے ۔ اس پر اتنا ظلم کیا گیا کہ اسے دہشت گرد قرار دے کر مار دیا گیا۔‘‘

یہ الفاظ بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے طالب علم اور براہوی زبان کے شاعر وسیم تابش کے والد محمد شریف زہری کےہیں جو بیٹے کی جدائی میں غم سے نڈھال ہیں۔

وسیم تابش کے خاندان کا الزام ہے کہ انہیں پہلے جبری طور لاپتا کیا گیا اور بعد میں ایک جعلی مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔

خضدار میں وسیم تابش کی رہائش گاہ پر فاتحہ خوانی کرنے والوں کا رش ہے۔ ان کے بوڑھے والد محمد شریف فاتحہ کے لیے آنے والے ہر شخص سے یہ کہتے ہیں کہ ’’میرے بیٹے کو میری آنکھوں کے سامنے ہی لے گئے، مگر میں اسے نہیں بچا سکا۔‘‘

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد شریف کا کہنا تھا کہ ’’ہم لاپتا بیٹے کی راہ تھکتے رہے۔ روزانہ اس کی خیریت سے گھر لوٹنے کا انتظار کرتے رہے، لیکن ہمیں اس کی لاش دی گئی۔ ایک نوجوان بیٹے کی جدائی کے دکھ کا اندازہ اسی کو ہوتا ہے، جس پر گزرتی ہے۔‘‘

وسیم تابش کون تھے؟

وسیم تابش کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے تھا، وہ زہری قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

وہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے وندر کی ایک جامعہ میں سالِ آخر کے طالب علم تھے، تعلیم کے ساتھ وہ براہوی زبان میں شاعری بھی کرتے تھے۔

وسیم تابش کے نو بھائی ہیں، جن میں ان کا پانچوں نمبر تھا۔ ان کے خاندان کا گزر بسر کھیتی باڑی سے ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او - پجار) کے مرکزی چیئرمین زبیر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وسیم تابش بی ایس او کے وندر زون کے صدر بھی تھے۔

انہوں ںے بتایا کہ وسیم تابش سیاسی طور پر بہت فعال تھے اور وہ میر غوث بخش بزنجو کے پیروکار تھے جب کہ عدم تشدد پر یقین رکھتے تھے ۔ ان کے بقول وہ ایک پر امن سیاسی کارکن کے طور پر کام کرتے تھے۔

وسیم تابش نے اپنی شاعری میں کیا کہا تھا؟

زبیر بلوچ نے بتایا کہ تابش براہوی زبان کے شاعر تھے اور ان کے اشعار میں ان کی سیاسی فکر جھلکتی تھی۔

انہوں نے بلوچستان میں ہونے والی جبری گمشدگیوں اور ان کے متاثرین پر بھی اشعار کہے ہیں۔

ان کے چند اشعار کا اردو ترجمہ ہے کہ’’ہم بے گھر ہیں

اور ہمارے بھائی لاپتا ہیں

اس لیے ہر خوشی بے رنگ ہے

ان کے بچوں کے پیروں میں جوتے ہیں

اور وہ بے گھر ہیں‘‘

انہوں مزید کہا ہے کہ جن لوگوں کے پیارے لاپتا ہیں ان کے دل اور جگر زخمی ہیں۔

ایک اور شعر میں انہوں نے تھا کہ ’’جس کا شوہر لاپتا ہے، وہ یہی کہتی ہے کہ میرے شوہر یہاں نہیں، تو میں کیسے عید مناؤں۔‘‘

سوشل میڈیا پر صارفین نے بھی وسیم تابش کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وسیم تابش کو ان کے اشعار کی سزا دی گئی ہے۔

وسیم تابش کب لاپتا ہوئے؟

وسیم تابش کے خاندانی ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں گزشتہ سال نو جون کو خضدار کے علی اسپتال سے سیکیورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتا کیا تھا۔

ان کے مطابق اس سے قبل خضدار کے علاقے زہری میں ان کے والد پر نامعلوم افراد نے فائرنگ تھی۔ اسی سلسلے میں وہ خضدار کے علی اسپتال میں زیرِ علاج تھے، جس وقت وسیم تابش کو لاپتا کیا گیا، وہ اپنے والد کی تیماری داری کے لیے اسپتال میں موجود تھے۔

ان کے والدین نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے لاپتا بیٹے کو بلوچستان کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کیا ہے۔

سی ٹی ڈی کا مؤقف کیا ہے؟

سی ٹی ڈی بلوچستان نے پریس ریلیز میں کہا ہے کہ رواں ہفتے منگل 17 اکتوبر کو حساس اداروں کو اطلاع ملی کہ کالعدم بلوچ عسکریت تنظیم بی ایل اے کے کچھ دہشت گرد ضلع خاران کے گرد و نواح میں موجود ہیں جب کہ ان کے پاس بھاری اسلحہ اور گولہ بارود بھی موجود ہے۔اطلاع ملی تھی کہ یہ دہشت گرد خاران میں بڑی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی اور مشترکہ ٹیموں نے خاران کے علاقے گواش سور بڈو کے علاقے میں چھاپہ مارا، جہاں سات دہشت گرد موجود تھے، جن کی قیادت اشفاق احمد عرف جمیل کر رہے تھے۔

سی ٹی ڈی نے کہا کہ جیسے ہی فورسز دہشت گردوں کے ٹھکانے پر پہنچی، تو ان پر فائرنگ کی گئی جس پر فورسز نے جوابی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں چار دہشت گرد مارے گئے۔حکام کے مطابق ان میں سے ایک وسیم سجاد تابش بھی تھے۔

سی ٹی ڈی کے دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہو سکی۔

قومی اسمبلی میں بحث

بلوچستان میں لاپتا افراد کی جعلی مقابلوں میں ہلاکتوں کی باز گشت قومی سطح پر بھی سنائی دیتی ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست اور وفاقی حکومت میں شامل جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی- مینگل) کے قائد سردار اختر جان مینگل نے قومی اسمبلی میں اس معاملے پر اظہار خیال کیا اور ایک بار پھر لاپتا افراد کے مسئلے کو اٹھایا۔

سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم دیواروں اور چھتوں سے خطاب کرتے۔ بلوچستان اور ملتان میں لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ وہاں بھی جمہوری حکومت ہے اور یہاں بھی۔ آئین میں تبدیلیاں ہوئیں لیکن بلوچ عوام کے حالات میں تبدیلی نہیں آئی۔


انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی شناخت ہوگئی ہے، تینوں افراد کو اٹھایا گیا تھا۔

سردار اختر جان مینگل کے بقول ہلاک ہونے والوں میں ایک نوجوان وسیم تابش لاپتا افراد کے حق میں نظمیں پڑھنے والا طالب علم تھا۔ اس ملک میں شاعری کرنا بھی گناہ ہے۔ جو لکھتے ہیں یا بولتے ہیں، انہیں اٹھایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ پی ٹی آئی کے اتحادی تھے، تو انہوں نے لاپتا افراد کی فہرست پیش کی تھی، ان میں سے ایک مردہ پایا گیا۔مینگل نے بلوچستان میں جعلی مقابلوں کے خاتمے پر زور دیا ہے۔

وفاقی وزرا خواجہ آصف اور شیری رحمان نے منگل کو بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے ’ٹروتھ اینڈ ریکنسی لیشن کمیشن‘ کے قیام کی تجویز اس وقت دی، جب ان کے اتحادی اختر مینگل کی جانب سے لاپتا افراد کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا گیا۔

خواجہ آصف نے اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی صورتِ حال کے حوالے سے اختر مینگل کے اٹھائے گئے نکات حقیقی ہیں۔ صوبے کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ مفاہمت شروع کرنے کے لیے بلوچستان کے مسائل کو سنا جائے۔ بلوچستان کے مسائل کے بارے میں کڑوا سچ بھی سننا چاہیے۔

دوسری جانب بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بدھ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے مبینہ جعلی مقابلے میں ان افراد کی ہلاکت کے اقدام کو انسانیت سوز واقعہ قرار دیا۔

مظاہرین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات کرے۔

XS
SM
MD
LG